=حکمت کے موتی= تکبر علم کو کھا جاتا ہے۔۔۔ اچھا سوال آدھا علم ہے۔۔۔ ۔۔۔ پست ارادے کامیابی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔۔۔ خامیوں کا احساس کامیابی کی کنجی ہے۔۔۔ جھوٹ بول کر جیت جانے سے سچ بول کر ہار جانا بہتر ہے۔۔۔ اللہ کے دشمنوں سے محبت کرنا اللہ تعالٰی سے دشمنی کرنا ہے۔۔۔ کمزور موقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں،باہمت انسان خود مواقع پیدا کرتے ہیں۔۔۔ برا دوست کوئلے کے مانند ہے،گرم ہوگا تو جلائے گا،ٹھنڈا ہوگا تو ہاتھ کالا کرے گا۔۔۔ . Anisur Rahman Makki

آداب تعلیم وتربیت حصہ دوم

آداب تعليم و تربيت (حصہ دوم)


(۱۹) اہم چیزوں کو لکھانا اورتختۂ سیاہ کا استعمال کرنا :
اساتذہ و معلّمات کو ضرورت کے مطابق طلبہ کو سمجھانے كے لئے کبھی کبھی تختۂ سیاہ (بلیک بو ر ڈ ) کا بھی استعمال کرنا چاہئے ،کچھ باتوں کا املا کرانا چاہئے، اور کچھ چیزیں لکھ کر بتانا چاہئے، اور جو با تیں اہم اور ضروری ہوں انھیں ضرور لکھانا چاہئے ،تا کہ وہ طلبہ کے پاس محفوظ رہیں،کیونکہ کہا جا تا ہے ’’الذھن خوّان‘‘ یعنی ذہن بہت خیانت کرنے والا ہے، بہت ساری باتوں کے بارے میں آ دمی سوچتا ہے کہ یہ ہمیشہ یاد رہیں گی مگر حافظہ خیا نت کرجاتا ہے اور وہ باتیں ذہن سے نکل جاتی ہیں ۔
خاص طور سے چھوٹے بچوں كے لئے ضروری باتیں بلیک بورڈ پر ضرورلکھ دینا چاہئے، تا کہ وہ دیکھ کر صحیح صحیح اپنی کا پیوں پر نقل کر لیں اور ان کے پاس محفوظ رہیں،اور ساتھ ہی بچوں کولکھنے کی اہمیت بھی بتانا چا ہئے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب انبیاء علیہم السلام  پر اپنے کلام کو نازل فرمایا، تو صرف انبیا ء علیہم السلام کی زبانی ان کی تبلیغ پر اکتفاء نہیں کیا ، بلکہ انھیں کتابی شکل میں بھی عنایت فر ما یاتاکہ وہ محفوظ رہیں اور لوگ مقررہ مدت تک ان سے استفادہ کرتے رہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قرآن کریم کی حفاظت كے لئے کاتبین وحی کو مقرر فرمایا ۔جو آپ پرنازل ہونے والی سورتوں اورآیتوں کو آپ کی ہدایت کے مطابق مصحف میں لکھتے تھے، فتح مکہ کے سال قبیلہ خزاعہ کے لوگوں نے بنی لیث کے ایک شخص کو قتل کردیا، جب اس واقعہ کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تو آپ نے اپنی سواری پر سوار ہوکر ایک عظیم الشان خطبہ دیا جس میں حرم کی عظمت وحرمت اور اس کے آداب کی تفصیل اور قتل میں قصاص ودیت کے احکام کو بیان فرمایا، جب آپ خطبہ سے فارغ ہوئے تو یمن کے ایک صحابی ابو شاہ رضى اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول مجھے یہ خطبہ لکھوا دیجئے ۔آپ نے صحابہ کرام رضى الله عنہم کو ابو شاہ كے لئے یہ خطبہ لکھ کر دینے کا حکم دیا ۔ اور فر مایا : ’’ اُکْتُبُوْا لِأبِيْ شَاهْ‘‘ابو شاہ کے لئے لکھ دو۔(صحيح البخاري مع فتح الباري : 3/ 165)
اسی طرح آپ نے عمر و بن حزم رضى اللہ عنہ وغیرہ كے لئے صدقات، دیات، فرائض اور سنن کے متعلق ایک کتاب تحریر کروائی تھی۔(انظر جامع بیان العلم واھلہ)
ان سب سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریر کا تعلیم و تبلیغ میں بڑا دخل اور اس کی بڑی اہمیت ہے ، اس واسطے طلبہ ا وراساتذہ کواہم اہم مسائل کے لکھنے لکھانے کا اہتمام کرنا چاہئے اور فرائض اور ریاضی وغیرہ کے مسائل کی تفہیم کے لئے بلیک بورڈ کا استعمال ضرور کرنا چاہئے۔
(۲۰)تدریس میں اعتدال و تدریج سے کا م لینا :
اساتذہ کو اس بات کا بھی لحاظ رکھنا چاہئے کہ اسباق کو تدریجا اور تھوڑا تھوڑا کر کے پڑھائیں ،ایسا نہ ہو کہ سال کا اکثر وقت گپ شپ میں گذار دیں اور جب امتحان کا وقت قریب آئے تو جلدی جلدی پڑھائیں،اور مقررہ نصاب میں سے کچھ پڑھائیں اور کچھ چھوڑ دیں، اورطلبہ سے کہیں کہ تم لوگ اسے خود سے پڑھ لینااور یاد کر لینا ،یا اکثر ایام کلاس سے غیر حاضر رہیں ، اورد نیا بھر کے دورے اور سفر کرتے رہیں اور اخیر میں آکر تیزی سے کتابوں کا دورہ کرا دیں، یہ طریقہ ہرگز صحیح نہیں ہے،طلبہ کو تھوڑا تھوڑاان کی قابلیت ا ور فہم کی صلاحیت کے مطابق پڑھانا اور سمجھانا چاہئے ۔ دورہ نہیں کرانا چاہئے، اور نہ وقت گذاری کرکے اکٹھے زیادہ پڑھا نا چا ہئے ۔
سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ایک استاذ کو جب کوئی کتاب پڑھانے کے لئے دی جائے تو وہ سب سے پہلے سال بھر کے تعلیمی ایام کا حساب لگا ئے، اس طرح کہ سال کے تین سو ساٹھ دن جوڑ کر دیکھے کہ ان میں سے کتنے دن تعلیم ہو گی، اور کتنے ایام رخصت وغیرہ میں نکل جائیں گے ۔ حساب لگاتے وقت رخصت علالت ، رخصت اتفاقی ،جمعہ کی چھٹیاں ،سہ ماہی ، ششماہی اور سالانہ امتحان اور ان کی تیاریوں کی چھٹیاں ،عید ،بقرعید کی چھٹیاں وغیرہ تمام تعطیلات کو مد نظر رکھیں، بلکہ حساب لگاتے وقت یہ بھی ملحوظ رکھناچاہئے کہ درمیان میں مہمانوں کی آمد، یا مدرسہ کے ذمہ داروں کی تشریف آوری کی وجہ سے لگ بھگ کتنے دن تعلیم نہیں ہو گی، اور اس کا بھی خیال رہے کہ یقینی طور سے سالانہ امتحان کی تیاری سے کم از کم پندرہ، بیس روز پہلے ہی کورس ختم ہوجائے ،کیونکہ اگر ایسا نہ ہو گاتو طلبہ کو مذاکرہ، آموختہ کے اعادہ، اور اساتذہ سے پوچھنے كے لئے موقعہ نہیں ملے گا ، اور نہ مدرس انھیں امتحان اور اسکی تیاری کے بارے میں کچھ بتا سکے گا۔ جبکہ مدرس کو امتحان سے پہلے اس کے بارے میں اہم اہم باتیں ضرور بتانا چاہئے،مثلاً یہ کہ امتحانی سوالات کے جوابات کیسے لکھنا چاہئے ، امتحان کی تیاری کیسے کرنی چاہئے ،پرچہ لکھتے وقت کن کن چیزوں کا لکھناضروری ہے وغیرہ وغیرہ۔
یاد رہے کہ جو اساتذہ سال بھر کا ٹائم ٹیبل بنا کر پڑھاتے ہیں وہ مناسب رفتار سے اور اچھی طرح پڑھا تے ہیں، اور ان کا کورس بھی آسانی سے ختم ہو جاتا ہے ۔اور جن کا کوئی ٹائم ٹیبل نہیں ہو تا وہ صحیح طریقے سے نہیں پڑھاتے ،اور عموماً ان کا کورس بھی وقت پر ختم نہیں ہوتا،اور تعلیمی میدان میں وہ ناکام رہتے ہیں، اس واسطے کہ وہ کبھی اتنا کم پڑھاتے ہیں کہ طلبہ کو نہ آسودگی ہوتی، اور نہ کورس ختم ہو تا ہے، اور کبھی اتنا زیادہ پڑھادیتے ہیں کہ طلبہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا، اور جو کچھ وہ پڑھا تے اور بتاتے ہیں وہ اسے ہضم نہیں کر پاتے۔ کیونکہ وہ نہ اتنا مطالعہ کرکے آتے ہیں اور نہ ہی استاذ اطمینان اور تفصیل کے ساتھ پڑھاتا ہے، بلکہ جلدی جلدی عبارت پڑھاکر آگے بڑھ جاتا ہے ،اور بہت سی چیزوں کو چھوڑ کرکہہ دیتا ہے کہ اب تم لوگ بڑی جماعت میں پہونچ گئے ہو، خود سے سمجھ لینا ، اور یاد کر لینا،اوردونوں صورتوں میں طلبہ کا علمی خسارہ ہوتا ہے۔
اسی طرح اساتذہ و معلّمات کو سبق کے سمجھانے اور معلومات دینے میں بھی اعتدال سے کام لینا چاہئے، نہ اتنی کم معلومات دیں کہ درس کا خاطر خواہ فائدہ نہ ہو اور طلبہ کی علمی تشنگی برقرار رہے، اور نہ اتنی تفصیل میں جائیں کہ ان کا سمجھنا اور یاد رکھنا طلبہ کے لئے مشکل یا نا ممکن ہو ۔مثلا ترجمہ معانی القرآن پڑھا تے وقت مفردات کی لغوی اور نحوی صرفی تشریح کرنی چاہئے ،آیات کا لفظی اور سلیس ترجمہ کرنا چاہئے ،سبب نزول اور آیتوں سے مستنبط ہونے والے کچھ مسائل بھی بتانا چاہئے ، صرف لفظی ترجمہ پر ہی اکتفا ء کرنا اور شان نزول وغیرہ کو بالکل ترک کردینامناسب نہیں ۔ اسی طرح کسی جگہ اتنی معلومات دے دینا کہ طلبہ ہضم نہ کرسکیں اور کسی جگہ بالکل خاموشی اختیار کرنا یا بہت مختصر معلومات دینابھی مناسب نہیں۔ صحیحین وغیر ہ کتب حدیث کے پڑھانے والے بعض اساتذہ صرف ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘کہنے پر اکتفا کرتے ہیں،اور جامعہ اسلامیہ میں تفسیر کے ایک استاذ تھے جو تفسیر فتح القدیر للشوکانی پڑھا تے تھے، وہ جب پڑھانے آتے تو زبانی آیتیں پڑھتے جاتے اور جلالین میں جتنی مختصر تفسیر ہے اتنی ہی مختصرتفسیر بیان کر دیتے، بلکہ صرف الفاظ قرآن کے آسان عربی میں ترجمے پر اکتفاء کرتے، اور کسی روز پاؤ پارہ ،کسی روز آدھا پارہ پڑھا کر چلے جاتے ،اس پرکئی طلبہ نے کہا:شیخ! تفسیر فتح القدیر مفصل ہے ،اس میں لغت، نحو، صرف، بلاغت، فقہ ، احادیث و آثاروغیر ہ کے مسائل بیان کئے گئے ہیں ،آپ ان پر بھی روشنی ڈالیں اورکچھ باتیں اپنی جانب سے بھی بتائیں، جتنی باتیں آپ بتاتے ہیں وہ بہت مختصر اور نا کافی ہیں ۔اس پر انھوں نے جواب دیا کہ میں جانتاہوں کہ تم لوگ کچھ نہیں سمجھ پاؤگے اسی واسطے میں جامعہ میں پڑھانے كے لئے نہیں آ رہا تھا ،مگر شیخ ابن باز  رحمہ الله نے اصرار کیا، اور کہا : آپ سے طلبہ کو فائدہ ہو گا، اس واسطے میں چلا آیا ، اگر ہم زیادہ بتائیں گے تو تم لوگوں کے کچھ پلے نہیں پڑے گا ۔اس پر طلبہ نے کہا :شیخ !مزید بتائیے ہم لوگ ان شاء اللہ سمجھیں گے ۔ توانھوں نے ایک آیت پڑھی ،اورجاہلی شعراء کے تقریبا ۱۰۰ اشعار اس کے ایک غریب لفظ کی تفسیر وتشریح میں پڑھے ،او ر پھر پوچھا کہ بتاؤ: کیا سمجھا ؟اور کتنا یاد ہے ؟
در حقیقت یہ افراط و تفریط اور حد اعتدال سے تجاوز کرناہے ۔ کہ یا تو اتناکم بتائیں کہ فتح القدیر کو جلالین بنادیں، یا اتنا زیادہ بتائیں کہ ایک لفظ پر ۱۰۰؍ اشعار سنائیں اور چاہیں کہ سب طلبہ کو بر وقت یاد بھی ہو جائے ،یہ تدریس کے صحیح منہج کے خلاف ہے ۔ہر مدرس اور معلمہ کوطلبہ اور طالبات کے معیار کے مطابق معتدل انداز میں کتاب پڑھانا اور معلومات دینا چاہئے، اور مناسب مقدار میں روزانہ پڑھانا چاہئے ۔اگراعتدال اور تدریج سے کام نہیں لیا گیا تو درس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا۔
جامعہ سلفیہ کے ہمارے اساتذہ میں سے ایک استاذ مولانا عبد المعید بنارسی رحمۃ اللہ علیہ تھے، یہ منطق ،فلسفہ اور نحو وصرف میں بڑے ماہر تھے، اس کے ساتھ تفسیر وحدیث بھی اچھا پڑھاتے تھے ، یہ ہمیشہ تعلیمی سال کی ابتداء ہی میں تعلیمی ایام کا حساب لگا لیتے ، جس میں جملہ تعطیلات کے علاوہ یہ بھی ملحوظ رکھتے کہ کبھی ناظم اعلی صاحب کے آنے کی وجہ سے اور کبھی کسی مہمان کی آمد اور کبھی کوئی ہنگامی پروگرام ہونے کی وجہ سے اسباق کا کتنا ناغہ ہوگا، پھر یہ دیکھتے کہ کتاب میں کتنے صفحات اور ہر صفحہ میں کتنی سطریں ہیں ،پھر انھیں تعلیمی ایام پرتقسیم کر کے دیکھتے کہ روزانہ کتنا پڑھائیں تو کورس آسانی سے ختم ہو جائے گا ؟ پھر اسی حساب سے روزانہ پڑھاتے، اورمعلومات بھی اتنی مقدار میں دیتے کہ طلبہ آسانی سے سمجھ جاتے ،جیسے جلالین میں ترجمہ کراتے اور اس میں مذکورہ مسائل کو متوسط انداز میں اچھی طرح سمجھاتے، نہ بہت لمبی تقریر کرتے اور نہ بہت اختصار سے پڑھاتے، جس سے طلبہ بھی مطمئن رہتے اور سب سے پہلے نصاب بھی ختم ہو جاتا۔ بہر حا ل اساتذہ کو تعلیم و تدریس میں اعتدال اور تدریج کا لحاظ رکھنا چاہئے ۔
غورفرمائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کا نزول ۲۳؍ سال میں تھوڑا تھوڑا کر کے ہوا، اور ایک ہی مرتبہ پورا قرآن نازل نہیں کردیا گیا،کیوں؟ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے یاد کرنے اور لو گو ں تک پہچانے میں آسانی ہو، او ر لوگوں کو بھی اس کے سمجھنے، یاد کرنے، اور عمل کرنے میں سہولت ہو ۔
اسی طرح اسلامی احکام و فرائض کا نزول بھی بتدریج ہوا، اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو انھیں ایک ہی مرتبہ نازل کر دیتا، مگر متعدد مصلحتوں کے پیش نظر ایسا نہیں کیا ۔ بہر حال تدریج اور اعتدال قرآن کریم کا منہج ہے، اور اس میں بڑی حکمتیں اور فوائد ہیں، اس واسطے اساتذہ و معلّمات کو بھی تعلیم و تربیت میں اس کا لحا ظ رکھنا چا ہئے۔
حضرت معاذ بن جبل رضى اللہ عنہ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن بھیجا تو انھیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: تم ایک ایسی قوم کی طرف جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں، تم انھیں پہلے توحید و رسالت کی دعوت دینا، وہ جب یہ بات مان لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسو ل ہیں تو پھر انھیں یہ بتانا کہ اللہ نے ان پر شب و روز میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ یہ بھی تسلیم کرلیں تو پھر انھیں یہ بتانا کہ اللہ نے ان پر زکاۃ فرض کیاہے جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور غریبوں اور فقیروں پر خرچ کی جائے گی۔ متفق علیہ(مشکوٰۃ:۱؍۵۵۵ ح ۱۷۷۲)
ان تمام دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم و تربیت میں تدریج و اعتدل کا لحاظ کرنا ضروری ہے ۔
(۲۱)مسائل کو آسان بنا کر پیش کرنا:
اساتذہ ومعلّمات کی ذمہ داری ہے کہ جو کتابیں پڑھائیں انھیں طلبہ وطالبات کے سامنے آسان اورقابل فہم و قابل حفظ بنا کر پیش کریں ۔ اور تعلیم اور مدرسہ کا ذکر بچوں کے سامنے اس طرح کریں کہ انہیں مدرسہ آنے اور تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہو۔
افسوس کہ برصغیر میں بچوں کو ان کے گھر والے ،محلہ پڑوس کے لوگ ،رشتہ دار اورخود بعض اساتذہ اورمدرسہ کے ذمہ داران بھی اس طرح ڈراتے ہیں کہ گویا بچے کو مدرسہ میں استاذ کے پاس پڑھنے کے لئے نہیں، بلکہ قصاب کے پاس ذبح کرنے کے لئے بھیجا جاتاہے ،اور مدرسہ تعلیم و تربیت کی جگہ اور درس گاہ نہیں، بلکہ بچوں کا مذبح ہے ۔ کسی بچے نے کوئی شرارت کی کہ امی یا ابو یا دادی کی آواز آئی :ارے یہ بہت شرارت کرنے لگا ہے، اس کا نام مدرسہ میں لکھادو ۔ وہاں ماسٹر صاحب یا میاں صاحب یا مولوی صاحب اس کو ٹھیک کر دیں گے ۔ کوئی کہتا ہے کہ وہاں اتنی پٹائی ہو گی کہ چھٹی کا دودھ یاد آجائے گا ۔کوئی مرغا بنانے ،کوئی پیٹھ پر اینٹ لادنے ، کوئی دیر تک اٹھک بیٹھک کرانے، کوئی کرسی بنانے ، اور کوئی کان اینٹھنے کا تذکرہ اتنے بھیانک انداز میں کرتا ہے کہ مدرسہ کا تصور بچہ کے ذہن میں کسی ایسے وحشت ناک جیل کی شکل میں ہوتا ہے۔ جس میں بچوں کو مارنے پیٹنے اور طرح طرح کی اذیتیں دینے کے لئے اساتذہ و معلّمین کے نا م پر انتہائی ظالم اور بے رحم قسم کے داروغہ اور پولیس کے لوگ رہتے ہوں۔
بعض اساتذہ و معلّمات بھی طلبہ و طالبات کو خوف زدہ کرتے اور ڈراتے رہتے ہیں کہ مدرسہ خالہ پھوپھی کا گھر نہیں ہے ، چمڑی ادھیڑ لیں گے ۔بعض معصوم بچوں کو بری طرح پیٹتے بھی ہیں ۔ بچوں کو ڈرانے کا یہ اسلوب اور طریقہ بالکل غلط اور انتہائی نقصان دہ ہے۔اس سے بچے پہلے ہی مدرسہ اور اساتذہ سے متنفر اور خوف زدہ ہو جاتے ہیں ،اور پھر یا تو وہ مدرسہ جاتے ہی نہیں، یا جاتے ہیں تو ڈرے اور سہمے ہوئے رہتے ہیں۔ جس سے ان کے اندر بزدلی و کم ہمتی پیدا ہو جا تی ہے، جو تعلیم و تربیت اور ہر ناحیہ سے بچوں کے لئے نقصان دہ ہے ۔
اس کے برخلاف ہم نے سعودی عرب میں دیکھاکہ بچوں کو مدرسہ جانے سے پہلے تعلیم کی خوب تر غیب دی جاتی ہے ،مدرسہ ، اس کے ماحول اور وہاں کی مشغولیات کو اس انداز میں ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کہ وہ بڑے شوق اور رغبت سے مدرسہ جاتے ہیں،اور مدرسہ میں بھی انہیں بڑے لاڈو پیارسے پڑھایا جاتا ہے،ان کے لئے کھیل اور تفریح کے مناسب سامان اور پروگرام ہو تے ہیں،وہاں انہیں چاکلیٹ اور مشروبات بھی دئے جاتے ہیں، جس سے طلبہ بلا کسی سختی اور مار پیٹ کے خود ہی مدرسہ جاتے ہیں، بلکہ اس كے لئے بے قرار رہتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ تعلیم كے لئے ترغیب و تسہیل کا انداززیادہ صحیح اور بہتر ہے۔
بہت سے اساتذہ کچھ کتابوں کو پڑھانے سے پہلے ہی کہنے لگتے ہیں کہ یہ کتا ب بہت مشکل ہے اور کسی کے سمجھ میں آنے والی نہیں ہے، لیکن پھر بھی ہم پڑھا ئے دیتے ہیں، نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ طلبہ پہلے ہی سے مایوس ہو جاتے ہیں اور اس کے درس کو توجہ سے نہیں سنتے ، اس طرح وہ کتاب انکی سمجھ میں نہیں آتی، حالانکہ اگراستاذ صرف یہ کہے کہ یہ کتاب ذرا مشکل تو ہے لیکن آپ لوگ توجہ دیجئے ان شاء اللہ سمجھ میں آجائے گی، اور طلبہ درس توجہ سے سنیں ،تو اسے آسانی سے سمجھ سکتے ہیں ، کیو نکہ ؂
مشکلے نیست کہ آساں نہ شود               مرد باید کہ ہراساں نہ شود
بہر حال اساتذہ و معلّمات ا ور والدین وغیرہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے سامنے مدرسہ اور تعلیم کا ذکر اچھے انداز میں کریں، اورمدرسے کا ماحول ایسا عمدہ ، خوش گوار اوردلچسپ بنا ئیں کہ بچے وہاں خود اپنے شوق اور رغبت سے جائیں، اور اساتذہ جو کتابیں یا مضامین پڑھائیں انھیں آسان اور قابل فہم بنا کر پیش کریں، طلبہ کی ہمت افزائی ،اور مدد کریں، اور کوئی ایسا قول و فعل ان سے صادر نہ ہو جس سے طلبہ کو تعلیم سے نفرت ہو اور وہ مدرسہ نہ جائیں یا چھوڑ دیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذرضى اللہ عنہ اورحضرت ابو موسی رضى اللہ عنہ کو جب یمن کی جانب روانہ کیا تو انھیں یہ نصیحت فرمائی:’’ يَسِّرَا ، وَلاَ تُعَسِّرَا وَبَشِّرَا ، وَلاَ تُنَفِّرَا ‘‘(صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 4/ 79 , صحيح مسلم : 5/ 141) لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنا ، سختی نہ کرنا ،ان کو بشارت دینا اور نفرت نہ دلانا،نیز آپ نے فر مایا ’’اِنَّ الدِّيْنَ يُسْرٌ، وَلَن يُّشَادَّ أحَدٌ اِلاغُلِبَ ،فَسَدِّدُوْا، وَقَارِبُوْا، وَاَبْشِرُوْا. ‘‘(البخاری: ۱؍۹۳) بیشک دین آسان ہے ۔ جو شدت کا رویہ اپنائے گا وہ مغلوب ہو جائے گا ،اس لئے سیدھی اور میانہ روی اپناؤ، اور بشارت حاصل کرو۔
(۲۲) طلبہ کو تعلیم کی اہمیت و فضیلت بتانا:
اساتذہ و معلّمات کی ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ و طالبات کو وقتاً فوقتاً تعلیم کی ضرورت و اہمیت اور اس کے فضائل و فوائد بتاتے رہیں،خاص طور سے نئے سال کی ابتداء میں اور ان طلبہ کے سامنے جو مدرسہ میں نئے نئے داخل ہوئے ہوں علم کی فضیلت پر ضرور روشنی ڈالیں اور بتائیں کہ علم ایک بہت بڑی نعمت اور بیش بہا دولت ہے، اس کی وجہ سے انسان کو دین و دنیا کے متعلق بڑی اچھی اچھی اور مفید معلومات حاصل ہو تی ہیں۔عزت و سربلندی ملتی ہے اور اس سے دنیا اور آخرت میں درجات بلند ہو تے ہیں ،قرآن مجید و سنت نبویہ میں اس کی بڑی تا کید اور ترغیب ہے ۔علم ہی سے افراد اور قومیں ترقی کرتی ہیں، اور آخرت کی کامیابی و کامرانی کا دارو مدار بھی علم وعمل پر ہے ۔
پھر انھیں صحابۂ کرام رضى الله عنہم اور اسلاف کے واقعات سنائیں اور بتائیں کہ انھوں نے حصول علم كے لئے کس قدر محنت کی اور قربانیاں پیش کی ہیں۔انھیں بتائیں کہ علم کی خاطر پریشانیاں اور اساتذہ کی سختیا ں بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں، حضرت جبریل  علىہ السلام جب پہلی مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی لے کر آئے تو انھوں نے آپ کو اتنے زور سے بھینچا کہ آپ کو کافی تکلیف پہونچی ، پھرفرمایا : ’’اِقْرَ أ‘‘ پڑھو،آپ نے کہا: ’’مَا اَنَا بِقَارِي‘‘مجھے پڑھنا نہیں آتا، پھر دوسری مرتبہ بھی اسی طر ح کیااور آپ نے اسی طرح جواب دیا، پھر تیسری مرتبہ بھی اسی طرح کیا اور فرمایا: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ (3) الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ  (العلق: ١ - ٥)پڑھئے اپنے اس رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جمے ہوئے خون سے انسان کی تخلیق کی،پڑھئے اور آپ کارب بڑا کریم ہے ،جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی ، انسان کو وہ سکھایا جس کااسے علم نہ تھا ۔(انظر صحیح البخاری:۱؍۲۳)
کبھی کھانے پینے کے انتظام میں کچھ پریشانی اور کمی ہو اور طلبہ کھانے کی شکایت کریں تو انہیں حضرت ابو ہریرہ رضى اللہ عنہ کا عبرت انگیز واقعہ سنائیں اور بتائیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضى اللہ عنہ جوعلم حدیث کے بہت بڑے حافظ اور مکثرین صحابہ میں سے تھے ، انھوں نے حصو ل علم کی خاطر بڑی تکلیفیں برداشت کیں،یہاں تک کہ کبھی کبھی بھوک کے مارے ان کا یہ حا ل ہوتا تھا کہ سینے کے بل مسجد میں پڑے رہتے ، ایک مرتبہ شدید بھوک کی وجہ سے نکل کر راستہ پر بیٹھ گئے ، ادھر سے حضرت ابو بکر رضى اللہ عنہ کا گذر ہوا تو ان سے ایک آیت کے بارے میں سوال کیا، مقصد صرف یہ تھا کہ وہ ان کی حالت کو سمجھ جائیں اور گھر لے جاکر کھانا کھلا دیں ،مگر وہ جواب دے کر آگے بڑھ گئے ، پھر ادھر سے حضرت عمر رضى اللہ عنہ گذرے تو ان سے بھی ایک آیت کے بارے میں سوال کیا ،وہ بھی جواب دے کر چلے گئے،اتنے میں وہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ہوا، آپ انھیں دیکھ کر مسکرائے،پھر فرمایا: ابو ہریر ہ ! میرے گھر آجاؤ۔ وہ آپ کے پیچھے پیچھے گئے ،گھر پہنچ کر آپ نے ازواج مطہرات سے پوچھا کہ کھانے کے لئے کچھ ہے ؟ جواب ملا کہ ایک پیالہ دودھ ہے جسے فلاں شخص نے ہدیہ میں بھیجا ہے۔ آپ نے حضرت ابو ہریرہ رضى اللہ عنہ سے فرمایا:تمام اصحاب صفہ کو بلالاؤ۔( اصحاب صفہ مدرسۂ نبوی کے وہ طلبہ تھے جو ایک طرح سے مسلمانوں کے مہمان تھے ،ان کے پاس مال و متاع اور اہل و عیال نہیں تھے ۔آپ کے پاس اگر صدقہ کا مال آتاتو سب ان کے پاس بھیج دیتے اور ہدیہ ہوتا تو آپ بھی ان کے ساتھ شریک ہو جاتے) حضرت ابو ہریرہ رضى اللہ عنہ کو اس وقت یہ بات اچھی نہیں لگی ،  وہ سوچنے لگے : ایک پیالہ دودھ ہے اور سارے اصحاب صفہ کو بلالاؤں گا تو کیا ہو گا ؟مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا اس واسطے سب کو بلا لائے، جب سب آکر بیٹھ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ابو ہریرہ ! پیالہ لو اور سب کو پلاؤ، وہ سوچنے لگے کہ جب تک میری باری آئے گی پتہ نہیں کچھ بچے گا بھی کہ نہیں،مگر الحمد ﷲاس دودھ میں اتنی برکت ہوئی کہ تمام اصحاب صفہ نے سیر ہو کر پیا ،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضى اللہ عنہ سے فرمایا: ابوہر یرہ! اب تم پیو ،وہ فرماتے ہیں میں نے پیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور پیو، میں نے اور پیا، آپ نے فرمایا اور پیو، میں نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دیکر بھیجا ہے اب کوئی گنجائش نہیں ہے ،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ اپنے ہاتھ میں لیا اور سب سے اخیر میں ا لحمد للہ اور بسم اللہ کہہ کرنوش فرمایا۔(رواہ الترمذی:۴؍۶۴۸ (۴۷۷ ۷) وقال: ھذا حدیث حسن صحیح)
بہر حال طلبہ کو بتانا چاہئے کہ علم کی راہ میں بھوک وپیاس کی تکلیف، اساتذہ کی ڈانٹ، مار اور سفر کی مشقتیں وغیرہ برداشت کرنی پڑتی ہیں، صحابہ کرام رضى الله عنہم نے ایک ایک حدیث کی طلب كے لئے ایک ایک ماہ کا سفر کیا ہے ، محدثین کرام رحمہم اللہ حصول علم كے لئے مختلف شہروں کا سفر کرتے ،کئی مرتبہ ایسا ہو تا کہ ان کے پاس کھانے پینے كے لئے کچھ نہیں ہوتا ۔ اور فاقہ یا درخت کی پتیوں پر گذارہ کرنا پڑتا ، بعض مر تبہ وہ اینٹ کا تکیہ بنانے پر مجبور ہوتے تھے۔(انظرمناقب الامام احمدلابن الجوزی ص:۲۵ ،۲۶)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ایک مرتبہ مکہ میں تھے ۔ ایک چور ان کا سامان اور کپڑے چرا لے گیا جس کی بنا پر وہ استاذ کے پاس پڑھنے نہیں جاسکے، ان کے ساتھی حال معلوم کرنے آئے تو سارا معاملہ بتایا ۔انھوں نے تعاون کرنا چاہا اور کہا کچھ پیسے یا تو صلہ رحمی کے طور پر یا قرض لے لو، مگر انھوں نے لینے سے انکار کر دیا ۔پھر بعض ساتھیوں نے یہ تجویز رکھی کہ آپ کچھ حدیثیں اپنے ہاتھ سے لکھ دیں ہم اس کی اجرت دے دیں گے،آخربمشکل تمام وہ اس پر راضی ہوئے اس طرح ان کے لئے کپڑوں کا انتظام کیا گیا۔ (انظر مناقب الامام احمد لابن الجوزی ص :۲۳۰)
مختصر یہ کہ طلبہ کے سامنے علم کی اہمیت وفضیلت بیان کرتے رہنا چاہئے، اور انھیں بتانا چاہئے کہ علم کی خاطر مختلف تکالیف اور مشقتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں، اس سے ان کے اندر علم کا شوق اوراس کے لئے ہر قسم کی تکلیفیں برداشت کرنے اورقربانیاں دینے کا جذبہ پیدا ہو گا۔
(۲۳) طلبہ کی ہمت افزائی کر نا:
جوطلبہ وطالبات ذہین و فطین ،صالح وپرہینر گار اور اچھے اخلاق و عادات کے حامل ہوں اساتذہ کو ان کی ہمت افزائی کرتے رہنا چاہئے۔ اسی طرح جو طلبہ ا چھے نمبرات سے کامیابی حاصل کریں یا اچھی تقریر کریں ،یا کسی سوال کا برجستہ صحیح جواب دیں ،یا نماز کی برابر پابندی کریں یا کوئی اور نمایاں اور اچھا کارنامہ انجام دیں ان کی بھی ہمت افزائی کرنی چاہئے ۔
غزوۂ تبوک کے موقع پرمسلمانوں کو سخت مالی مشکلات کا سامنا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے تعاون کی اپیل کی تو حضرت عثمان غنی رضى اللہ عنہ نے ایک ہزاردینار پیش کئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دیناروں کو اچھالتے جاتے اور فرما تے جاتے :آج کے بعد عثمان غنی کو کوئی گناہ نقصان نہیں پہنچائے گا۔( فضا ئل الصحابۃ للامام احمد بن حنبل:رقم۷۳۸،۸۴۶)
یہ ان کے ایثار و قربانی اور انفاق فی سبیل اللہ کی عزت افزائی اور تحسین تھی۔
اس موقع پر سب سے زیادہ ایثار ایک غریب اورمحنت کش صحابی نے کیا، جنھوں نے رات بھر پانی کھینچ کھینچ کردو صاع چھو ہارہ کمایا،پھراس میں سے ایک صاع چھو ہارہ اپنے اہل و عیال كے لئے رکھا اور ایک صاع آپ کی خدمت میں لاکر پیش کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس جذبۂ ایثار کی بڑی قدر کی اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا: ان چھوہاروں کو قیمتی مالوں کے ڈھیر پر بکھیر دو ۔ (تفسیر ابن کثیر:۲؍۴۹۲)
اسی طرح جوطلبہ اپنی غربت اور پریشانیوں کے باوجود حصول تعلیم میں لگے ہوں ان کی دل جوئی اور ہمت افزائی کرنی چاہئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمار بن یا سررضى اللہ عنہ اور ان کے اہل خانہ کو توحید کی خاطر کفار کی اذیتیں برداشت کرتے دیکھتے تو ان کی دلجوئی اور ہمت افزائی کرتے ہوئے فرماتے:’’ اَبْشِرُوْا آلَ يَاسِرْ فَاِنَّ مَوْعِدَ کُمُ الْجَنَّةُ‘‘ (المعجم الأوسط للطبراني: 2/ 141 , المستدرك على الصحيحين للحاكم : 3/ 438) اے یاسر کے گھر والو ! تمہیں خوشخبری ہو ، تمہارے لئے جنت کا وعدہ ہے ۔
اسی طرح اساتذہ ان غریب اور کمزور حال طلبہ کو تسلی دیں اور ان کی ہمت افزائی کرتے ہوئے ان سے کہیں : صبر کرو اور محنت سے پڑھوان شاء اللہ تمہارا مستقبل روشن ہوگا، کامیابی تمہاری قدم بوسی کرے گی ، اور تمہاری محنت، صبر اور قربانی کا پھل تمہیں ضرور ملے گا۔
حضرت عمر بن خطاب رضى اللہ عنہ حضرت ابن عباس رضى اللہ عنہ کی ان کے علم و فضل کی وجہ سے تعریف کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے’’نِعْمَ تَرْجُمَانُ الْقُرآنِ ابنُ عَبَّاس‘‘ ابن عباس کیا ہی بہترین قرآن کی تفسیر کرنے والے ہیں، اور کبھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما تشریف لاتے تو فرماتے: ’’جَاءَ فَتَی الْکُهُولِ ، وَذُو اللِّسَانِ السَّؤلِ، وَالقَلْبِ الْعَقُولِ‘‘ ادھیڑ عمر والے کی متانت وسنجیدگی اور سوال کرنے والی زبان اورعقل رکھنے والے دل کامالک نوجوان آگیا۔
عبد الملک بن عبد العزیز بن ابی سلمہ الماجشون فرماتے ہیں کہ میں منذر بن عبد اللہ الحزامی کے پاس آیا ، اس وقت میں کمسن تھا، مگر میں نے جب ان سے گفتگو کی تو میری زبان میں فصاحت دیکھ کر انھوں نے میری جانب زیادہ التفات کیا، پھر پوچھا تم کون ہو ؟ میں نے کہا عبد الملک بن عبد العزیز بن ابی سلمہ ۔ انھوں نے فرمایا:’’ اُطْلُبِ الْعِلْمَ فَاِنَّ مَعَکَ حِذَاءَ کَ وَ سِقَاءَ کَ ‘‘ تم علم حاصل کرو، تمہارے پاس تمام اسباب موجود ہیں۔
امام زہری اپنے تلامذہ سے فرمایا کرتے تھے ’’لاَ تُحَقِّرُوا أنْفُسَکُمْ لِحَدَاثَةِ أنْفُسِکُمْ‘‘ تم لوگ اپنے آپ کو اپنی کم عمری کی وجہ سے حقیر مت سمجھو ۔
اچھے اساتذہ ہمیشہ اپنے طلبہ کی ہمت افزائی کرتے اور انھیں محنت کرنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ تم ہی لوگ مستقبل میں امت کے کشتىبان ہوگے۔ قوم کی قیادت اور سیادت تمہیں لوگوں کو سنبھالنی ہے، تمہیں لوگوں میں کوئی محدث بنے گا ، کوئی مفسر، کوئی مفتی بنے گا،کوئی قاضی، کوئی مصنف بنے گا، کوئی صحافی۔تمہیں کو جامعات و مدارس اور دینی جماعتوں اور تحریکوں کی ذمہ داریوں کو سنبھالنا ہے، اس واسطے خوب محنت کرواور اپنے آپ کو ہر اعتبار سے ان ذمہ داریوں کو اٹھانے کا اہل بناؤ اگرتم لوگوں نے ابھی محنت نہیں کی اور اپنے آپ کو اس کے لئے تیار نہیں کیاتو تمہارا اور قوم کا بہت خسارہ ہو گا ۔
طلبہ کی ہمت افزائی کرنا ،انہیں علم کا شوق دلانا، ان کی خفتہ صلاحیتوں کو بیدار کرنا نہایت ضروری ہے، تا کہ وہ سلف کے بہترین خلف بن سکیں اور جو ذمہ داریاں ان پر امت کی اصلاح ،دینی ودنیوی قیادت،اسلامی عقیدہ وتہذیب کی حفاظت او ر علم کی نشرو اشاعت کے سلسلہ میں آنے والی ہیں انہیں بحسن و خوبی ادا کرسکیں۔
(۲۴) کبھی کبھی طلبہ سے سوالات کرنا:
اساتذہ کو چا ہئے کہ طلبہ سے کبھی کبھی سوالات کرتے رہیں،ان سے سوالات کرنے کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ اس سے ان کے ذہن کا صیقل ہوتا ہے، جس طرح لوہے پر زنگ لگ جاتا ہے تو اسے صیقل کیا جاتا ہے جس سے اس کی صفائی ہو جاتی ہے اور چمکنے لگتا ہے اور چھری وغیرہ ہو تو تیز بھی ہوجاتی ہے، اسی طرح ذہنوں کوبھی سوالات کے ذریعہ صیقل کیا جاتا ہے، کیونکہ اگر طلبہ اپنے ذہنوں کو استعمال نہ کریں اور یوں ہی چھوڑ دیں تو ان میں بھی زنگ لگ جاتا ہے اور کند ہو جاتے ہیں، اور اگر اساتذہ وغیرہ ان سے برابر سوالات کر تے رہیں اور وہ اپنے ذہنوں کو برابر استعمال کرتے رہیں تو ان کا ذہن تیز ر ہتاہے اور سوچنے سمجھنے اور یاد رکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے ۔
دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے طلبہ سبق اور آموختہ برابر یادکرتے اور اپنی معلومات تازہ رکھتے ہیں، اور اگر اساتذہ صرف پڑھاتے رہیں اور کبھی ان سے سوالات نہ کریں اور آموختہ نہ سنیں تو وہ خالی کلاس میں درس کے سماع پر اکتفاء کرتے ہیں، نہ مطالعہ کرتے ہیں، نہ سبق یاد کرتے ہیں ،نہ آموختہ دہراتے ہیں، اور ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی کند پڑ جا تی ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابۂ کرام رضى الله عنہم سے ان کی معلومات کا جائزہ لینے اور ان کے ذہنوں کو صیقل کرنے كے لئے کبھی کبھی سوالات پوچھا کرتے تھے ، ایک مرتبہ آپ نے صحابۂ کرام ث سے پوچھا : بتاؤ وہ کون سا درخت ہے جس کی مثال مومن کی سی ہے اور اس کے پتے جھڑتے نہیں؟حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ سب لوگوں کا ذہن جنگل کے درختوں کی طرف گیا، مگر میرا ذہن فوراً کھجور کی طرف گیا، کیونکہ تھوڑی دیر قبل ہی آپ کے سامنے کھجور کے گاپھا کا میٹھا گودا پیش کیا گیا تھا اور آپ نے ہم لوگوں کے ساتھ اسے تناول فر مایا تھا۔ میں نے بتا نا چاہا مگر دیکھا کہ میں سب سے چھوٹا ہوں اس لئے خاموش رہا ۔ پھر لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ آپ ہی بتائیے وہ کون سا درخت ہے؟ آپ نے فرمایا:کھجور کا درخت۔ ( بخاری: ۱؍۱۴۷ مع الفتح)
علاوہ ازیں سوال و جواب کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے مخاطبین و حاضرین کو باتیں بہت جلد سمجھ میں آجا تی ہیں۔ کیونکہ سوال کی وجہ سے مخاطبین اس کی جانب پورے طور سے متوجہ ہوجاتے ہیں اور گفتگو میں دلچسپی لیتے ہیں، اسی واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم و تفہیم کے لئے کبھی کبھی اس انداز کو بھی اختیار فرمایاکرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے صحابہ کرام ثسے پوچھا : ’’اَتَدْرُوْنَ مَنِ الْمُسْلِمُ ؟‘‘ کیا تم لوگ جانتے ہو کہ مسلمان کون ہے؟ انھوں نے کہا : ’’اللّهُ وَرَسُولُهُ اَعْلَمُ ‘‘اللہ اور اس کے رسول کو اس کا زیادہ علم ہے ، آپ نے فرمایا:’’ اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِهِ وَ يَدِهِ ‘‘ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں۔پھر آپ نے فرمایا:’’ اَتَدْرُوْنَ مَنِ الْمُؤمِنُ؟‘‘ کیا تم جانتے ہو مومن کون ہے ؟ صحابہ نے کہا : ’’ اللّهُ وَرَسُولُهُ اَعْلَمُ ‘‘اللہ اور اس کے رسول کو اس کا زیادہ علم ہے۔آپ نے فرمایا: ’’اَلْمُؤمِنُ مَنْ أمِنَهُ الْمُؤمِنُوْنَ عَلیٰ أنْفُسِهِمْ وَ أمْوَالِهِمْ ‘‘ مومن وہ ہے جس سے اہل ایمان اپنی جانوں اور مالوں کے سلسلہ میں مامون و محفوظ رہیں۔ (مسند أحمد بن حنبل: 2/ 206)
اس واسطے اساتذہ کرام کو بھی طلبہ سے سوالات کرتے رہنا چاہئے اور خاص طور سے جماعت ثالثہ تک کے طلبہ سے خوب پوچھنا اور آموختہ ودرس سنتے رہنا چاہئے ،تاکہ ان کو نحو، صرف وغیرہ کے قواعد اور بنیادی باتیں اچھی طرح یاد ہو جائیں۔
(۲۵)طلبہ کو محنت پر ابھارنا:
یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ کوئی چیز بھی بغیر محنت اورجد وجہد کے حاصل نہیں ہو تی ۔ مگر حصول علم کے لئے خصوصی طور پر محنت کی ضرورت ہے ،قاعدہ ہے:’’مَنْ جَدَّ وَجَدَ‘‘جو محنت اور کوشش کرے گا وہ پائے گا۔’’وَلَيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَاسَعیٰ‘‘انسان كے لئے وہی ہے جو اس نے محنت کر کے حا صل کیا ۔ ’’ بَقَدْرِ الْکَدِّ تُکْتَسَبُ الْمَعَالِیْ ‘‘ کدو کاوش کے مطابق ہی اعلی مراتب حاصل ہوتے ہیں۔
ہمارے اسلاف, محدثین ، فقہاء اور بڑے بڑے ائمہ کرام نے جو مختلف علوم میں اعلیٰ مقامات حاصل کئے اور انھیں ان علوم وفنون میں جو مہارت حاصل ہوئی ان میں ان کی محنت اور جد وجہد کا بھی بڑادخل تھا ۔مثلاً امام بخاری رحمہ اللہ امیر المؤمنین فی الحدیث مانے جاتے ہیں اور ان کی کتاب صحیح بخاری’’ اَصَحُّ الْکُتُبِ بَعْدَ کِتَابِ اللّٰهِ‘‘ مانی جاتی ہے،مگر ان کو اور ان کی کتاب کو یہ مقام ویسے نہیں حاصل ہوا،اس کے لئے انھوں نے بڑی محنت اور جد وجہد کی، حصول علم کے لئے ان کی حرص و خواہش اور جد وجہد کا یہ عالم تھاکہ رات کو کئی کئی مرتبہ بیدار ہوتے، اٹھ کر چراغ جلاتے اور ذہن میں جو علمی نکتے اور فوائد کی باتیں آتیں انھیں نوٹ کرتے ،اور پھر چراغ بجھاکر لیٹ جاتے ، حتی کہ بعض راتوں میں آپ اس طرح بیس بیس مرتبہ اٹھتے ۔
ابو الوفاء ابن عقیل  رحمہ الله  کے علمی شوق کا یہ عالم تھاکہ وہ کہتے ہیں : میں پوری کوشش کرتا ہوں کہ کھانے میں کم سے کم وقت صرف ہو، چنانچہ وقت بچانے کی خاطر میں روٹی کی بجائے کیک کے سفوف کو ترجیح دیتا ہوں، اور اسے پانی کے ساتھ نگل لیتا ہوں،اس طرح مطالعہ اورعلمی فوائد کو نوٹ کرنے کے لئے وقت بچاتا ہوں۔وہ فر ماتے تھے کہ میں اپنے لئے حلال نہیں سمجھتا کہ اپنی عمر کی ایک ساعت بھی ضائع کردوں۔یہاں تک کہ جب میں تھک جاتا ہوں اور زبان مذاکرہ اور قراء ۃ سے قاصر اورآنکھیں مطالعہ سے عاجز ہو جاتی ہیں تو آنکھیں بند کر کے چپ چاپ لیٹ جاتا ہوں، اور اس آرام کی حالت میں بھی غورو فکر کرتا رہتا ہوں،اور جو علمی باتیں اور نکات ذہن میں آتے ہیں ان کو ترتیب دیتارہتا ہوں، پھر جب کچھ آرام کر کے اٹھتا ہوں تو انھیں ترتیب سے لکھ لیتا ہوں ، آج میری عمر اسّی سال ہے مگر میرے علمی ذوق و شوق اور تڑپ میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے ، بیس سال کی عمر میں حصول علم کی جتنی خواہش اورلگن میرے اندر تھی آج اس سے زیادہ ہی ہے ۔
شیخ مجد الدین ابو البرکات عبد السلام بن عبد اللہ جو ا بن تیمیہ الجد کے نام سے مشہور ہیں اور جنکی تصنیفات میں سے ’’منتقی الأخبار من احادیث سید الأخیار ‘‘ جس کی شرح ’’نیل الاوطار للشوکانی ‘‘ ہے اور ’’المحرر فی الفقہ‘‘ وغیرہ بیش قیمت کتابیں ہیں، ان کے حصول علم کے شوق و حرص اور اپنے اوقات کو بے کار ضائع ہو نے سے بچانے کی خواہش کا یہ عالم تھا کہ ان کے بارے میں شیخ عبد الرحمن بن عبد الحلیم بن تیمیہ رحمہ اللہ فر ماتے ہیں کہ ہمارے دادا جب بیت الخلاء جاتے تومجھ سے کہتے : کتاب کو تم بلند آواز سے پڑھو، تاکہ میں بیت الخلاء میں بھی سنتا رہوں، اوریہ صرف اس خاطر تھا کہ ان کا یہ وقت حصول علم سے خالی نہ جائے ۔(دیکھئے:مقدمۃ المحررفی الفقہ:ص۱۳، العلم و الدین:۱۰،۱۱)
اس واسطے اساتذہ و معلمات کو خود حصول علم کے لئے خوب محنت کرنی چاہئے اور طلبہ و طالبات کو بھی برابرحصول علم کے لئے محنت کرنے کی تاکید کرتے رہنا چاہئے اور ان کے اندر مطالعہ کا شوق پیدا کرنا اور انھیں علم کے دینی و دنیوی فوائد بتاتے رہنا چاہئے۔
(۲۶)حصول علم کے اہم اور آسان طریقوں سے آگاہ کرنا:
اساتذہ ومعلّمات کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ وطالبات کی حصول علم کے آداب وافضل طر یقوں کی جانب رہنمائی کرتے رہیں۔مثلاًکلاس میں غسل کرکے یا کم ازکم ہاتھ منہ دھوکر اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر آنا ،تاکہ نشاط رہے اور نیند نہ آئے ،روزانہ مطالعہ کرنا، اسا تذہ درس میں جو باتیں بتائیں انھیں توجہ سے سننا اور سمجھنے کی کوشش کرنا،کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو دوبارہ استاذ سے پوچھ لینا ،درس کے وقت بات کر نے اور سونے سے احتراز کرنا ۔وغیرہ وغیرہ
انھیں یہ بھی بتائیں کہ کلا س میں اساتذہ کی بتائی ہوئی باتوں کو تفصیل کے ساتھ نوٹ کرنا ممکن نہیں ہوتا ، اس لئے خاص خاص باتیں اشارات میں نوٹ کرلیں اورجب کلاس ختم ہو نے کے بعد اپنے کمرے میں جائیں تو تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد انہیں تفصیل سے لکھ لیں، اس واسطے کہ ان اشارات کو بر وقت سمجھنا آسان ہوتا ہے، مگرایک دو ہفتہ کے بعد ان کو دیکھیں گے تو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آئے گا،لہذاہر روز کا درس اسی دن تعلیم کے بعد لکھ لینا چاہئے، اور آج کا کام کل پر نہیں ٹالنا چاہئے۔ اسی طرح حصول علم کے جو آسان طریقے اور آداب ہیں انھیں وقتاً فوقتاً طلبہ کو بتاتے ر ہنا چاہئے۔
(۲۷)طلبہ کو اپنے وقت کو منظم کرنے کی ترغیب دینا:
بہت سے طلبہ وطالبات اپنی طا لب علمی کی زندگی بڑے غیر منظم طریقے پر گذارتے ہیں ، چنانچہ پڑھنے کے وقت سوتے ،اور سونے کے وقت پڑھتے یا کھیلتے ہیں ، بے وقت کھاتے اور بے وقت بازار جاتے ہیں ،اسی طرح نہانے دھونے وغیرہ کے سلسلے میں بھی انکا کوئی نظام نہیں ہو تا ، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ تعلیم میں بھی نا کام ہو جاتے ہیں۔اور دوسرے کا موں میں بھی کامیاب نہیں ہو تے۔
اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے طلبہ کو ہمیشہ اپنے اوقات کو منظم کرنے اور وقت کی پابندی کر نے کی ترغیب دیں، اور تنظیم اوقات کے جو فوائد اور وقت کی پابندی نہ کرنے اور غیر منظم زندگی گزارنے کے جو نقصانات ہیں انھیں بتائیں، اور پھر اس سلسلہ میں جو طلبہ کوتاہی کریں اورغفلت سے کام لیں ان کے ساتھ کوئی رعایت نہ کریں ۔
جوطلبہ کلاس کے وقت بلا کسی معقول عذر کے سونے یاکھیلنے یا نہانے دھونے یا تعلیم کو چھوڑ کر کسی اور کام میں مشغول رہیں ان کو اس سے سختی سے منع کرنا چا ہئے ،اور جو نہ مانیں ان کے خلاف تادیبی کاروائی کرنی چاہئے ۔کیونکہ جب تک وقت کی صحیح تنظیم اور پابندی نہیں ہوگی صحیح طور سے علم حاصل نہیں ہو سکتا ۔نیز یہ چیز ہمیشہ کے لئے مضر ہے ،اگردور طالب علمی سے ہی اس سلسلہ میں طلبہ کی اصلاح نہ کی گئی تو وہ ہمیشہ كے لئے بد نظمی کے عادی ہو جائیں گے۔اور ان کی پوری زندگی غیر منظم طریقہ پر اور ناکام گزرے گی۔
(۲۸)نشاط کے وقت پڑھنے پرابھارنااور کلاس میں تازہ دم ہوکرآنے كے لئے تاکید کرنا:
جیسے مسلسل کام کرنے کی وجہ سے بدن تھک جاتا ہے، اسی طرح مسلسل پڑھنے اور ذہنی کام کرنے کی وجہ سے ذہن بھی تھک جاتا ہے ،اور جیسے بدن تھکا ہوا ہو تو جسمانی کام صحیح طور سے نہیں ہوتا ہے اسی طر ح جب ذہن اور دماغ تھکا ہوا ہو اور ذہنی نشاط اور سکون خاطر نہ ہوتو پڑھنے پڑھانے کا کام بھی صحیح طریقہ سے نہیں ہوتا ۔اس واسطے طلبہ کو کلاس میں ہاتھ منھ دھو کر بلکہ ممکن ہو تو غسل کرکے،اورصاف ستھرے کپڑے پہن کر اور خوشبولگاکرآنے کی تاکید کرنا چاہئے، تاکہ درس کے وقت ان میں نشاط رہے اور وہ توجہ سے سبق سن اور سمجھ سکیں ۔اسی طرح طلبہ کو سونے اور آرام کرنے کے وقت سونے اور آرام کرنے کی تاکید کرنا چاہئے، تاکہ کلاس میں انہیں نیند نہ آئے اور وہ اتنے تھکے ہوئے نہ ہوں کہ درس میں دل نہ لگے۔
ا گر کوئی طالب علم بیماری یا کسی وجہ سے رات کو نہ سو سکے اور تعلیم کے وقت اس پر تکان اور نیند کا غلبہ ہو تو اس سے کہنا چاہئے کہ کلاس سے رخصت لے کر آرام کر ے اور جب نیند پوری ہوجائے اور اسے سکون وآرام مل جائے تب پڑھے ۔تھکے ماندے اور نیند سے پریشان طلبہ کو پڑھانا ،یا ایسے وقت پڑھانا جب سب کو نیند آرہی ہو یا سخت گرمی یا سردی سے سب پریشان ہوں بے سود ہے ، اس سے احترازکرنا چاہئے ۔
مدارس کے ذمہ داروں کو بھی اس کا لحاظ کرنا چاہئے کہ سخت گرمی یا سردی میں اساتذہ و طلبہ کو پڑھنے پڑھانے کا مکلف نہ کریں ، بلکہ ایسے وقت میں تعطیل کردیں ۔حضرت عبد اللہ بن مسعودرضى اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’إنَّ لِلْقُلُوبِ نَشَاطًا وَإِقْبَالاً ، وَإِنَّ لَهَا لَتَوْلِيَةً وَإِدْبَارًا ، فَحَدِّثُوا النَّاسَ مَا أَقْبَلُوا عَلَيْكُمْ ‘‘ دلوں میں نشاط اور رغبت بھی ہو تی ہے،ا ور اعراض و بے رغبتی بھی ،اس واسطے جب لوگوں میں نشاط، رغبت اور توجہ ہو تو ان سے حدیثیں بیان کرو۔
اور حضرت علی رضى اللہ عنہفرماتے ہیں :’’ دلجمعی حاصل کرو ،ذہن کو انتشار سے بچاؤ اور اس کے لئے حکمت کی پر لطف باتوں سے مدد لو ۔جیسے بدن تھک جاتاہے اسی طرح دلوں میں بھی اکتاہٹ پیداہو جاتی ہے‘‘۔
حضرت ابو وائل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن مسعودرضى اللہ عنہ نکل کر ہمارے پاس آئے پھر فرمایا: ’’ إِنِّي أَخْبَرُ بِمَكَانِكُمْ وَلَكِنَّهُ يَمْنَعُنِي مِنَ الْخُرُوجِ إِلَيْكُمْ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَةِ فِي الأَيَّامِ كَرَاهِيَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا ‘‘( رواہ البخاری وغیرہ )
مجھے آ پ لوگوں کے بیٹھنے کا علم ہے مگر مجھے نکل کرآپ لوگوں کے پاس آنے سے صرف یہ مانع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے وعظ و نصیحت میں ہمارے اکتاجانے کے ڈرسے ناغہ کرتے تھے ۔
بہر حال اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ کو نشاط کے وقت پڑھنے اور مطالعہ کرنے پر ابھاریں اور بتائیں کہ نشاط کے وقت پڑھنے اور تھک جانے کی صورت میں آرام کرنے سے مطالعہ کا خاطر خواہ فائدہ ہو گا اور صحت و تندرستی بھی قائم رہے گی ۔
خود اساتذہ کو بھی اس بات کا لحاظ رکھنا چاہئے کہ جب طلبہ اکتاجائیں اور ان کے اندر نشاط اور رغبت نہ ہو توان کی چھٹی کردیں۔ اوراگر گھنٹی ختم نہ ہو ئی ہو تو دلچسپ علمی چٹکلوں اور اہل علم کے پر لطف اور عبرت انگیز واقعات کے ذکر اور اچھے اشعار پڑھنے سننے اور بیت بازی وغیرہ میں وقت صرف کریں۔
(۲۹)احکام شرعیہ اور اسلامی اخلاق و عادات کی پا بندی کرانا :
اساتذہ ومعلّمات کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ طلبہ وطالبات کو اسلامی اخلاق وعادا ت ، اوراحکام شرعیہ کی پابندی،اوردینی ا مور کے لحاظ کرنے کی تعلیم وترغیب دیں، ایسا نہ ہو کہ مدرسہ میں رہ کر وہ صرف کتاب خوانی کریں، اور اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ کی جانب توجہ نہ دیں،مدرسہ صرف تعلیم گاہ ہی نہیں بلکہ تربیت گاہ بھی ہے ،اس واسطے طلبہ کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت کا بھی خیال رکھنا     چا ہئے اور انہیں اخلاق فاضلہ،عادات اسلامیہ اور احکام شرعیہ کی پابندی کی تاکید کرتے رہنا چاہئے ۔
امام مدائنی فرماتے ہیں کہ عبد الملک بن مروان نے اپنے بچوں کے اتالیق سے کہا : ’’عَلِّمْهُمُ الصِّدْقَ کَمَا تُعَلِّمُهُمُ الْقُرْآنَ ‘‘ ان کو سچائی کی ایسی ہی تعلیم دو جیسے تم انہیں قرآن کی تعلیم دیتے ہو ۔
کیونکہ اگر سچائی نہ ہو ، حسن اخلاق نہ ہو ، بات چیت کا سلیقہ نہ ہو ، چھوٹے بڑے کی تمیز نہ ہو، احکام شرعیہ کی پابندی نہ ہو تو ایسی صورت میں تعلیم ، مدرسہ اور قرآن و حدیث اور دیگر علوم شرعیہ کے پڑھنے پڑھانے کا کیافا ئدہ؟ اس واسطے جیسے طلبہ کوکتاب و سنت اور دیگر علوم کی تعلیم دیتے ہیں ویسے ہی انھیں اخلاق حسنہ اور احکام شرعیہ کی پابندی کی بھی تعلیم دینی چاہئے۔
عبد الملک بن مروان نے یہ بھی کہا: ’’وَجَنِّبْهُمُ السَّفَلَةَ‘‘ہمارے بچوں کو نچلے درجے کے لوگوں سے دور رکھئے’’فَاِنَّهُمْ أسْوَأ النَّاسِ رَغْبَةً فِيْ الْخَيْرِ وَ أقَلُّهُمْ أدَباً‘‘ اس واسطے کہ نچلے درجے کے لوگ نیکیوں کی سب سے کم رغبت رکھنے والے اور قلیل الادب ہو تے ہیں ۔( الدین و العلم : ص ۲۰ )
بہر حال طلبہ کو برے لوگوں کی صحبت سے دور رکھتے ہوئے اچھے اخلاق وعادات کا عادی اور شرعی امور کا پابند بنانا چاہئے ۔اور انھیں اپنے لباس، وضع قطع اورشکل و صورت وغیرہ کو درست کرنے اور شریعت کے مطابق رکھنے کی ترغیب دیتے اور تاکید کرتے رہنا چاہئے ۔
(۳۰) بوقت ضرورت طلبہ کو تنبیہ کرنا:
اساتذہ ومعلّمات کو بوقت ضرورت طلبہ وطالبات کو تنبیہ کرتے رہنا چاہئے ،اور اگر تعلیم و تربیت کے لئے انھیں سزا دینے کی ضرورت پڑے تو سزابھی دینا چاہئے، لیکن پہلا مرحلہ سمجھا نے کا ہے جیسا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے سلسلہ میں فرمایا : ’’مُرُوْا أوْلادَکُمْ بِالصَّلاَةِ وَهُمْ أبْنَاءُ سَبْعِ سِنِيْنَ،وَاضْرِبُوْهُمْ عَلَيْها وَهُمْ أبْنَاءُ عَشْرِ سِنِيْنَ ، وَ فَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِِ‘‘ ( رواه احمد:۱؍۱۸۰، ۱۸۷، وابوداود، وسنده حسن کما قال الالباني في حاشية المشکاة؍۱۸۱)
جب بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز کا حکم دو،اور جب دس سال کے ہوجائیں اور نماز نہ پڑھیں تو انہیں مار مار کرنماز پڑھاؤ اور ان سب کے بستر الگ الگ کر دو۔
اس لئے اگر کچھ طلبہ یا طالبات سمجھانے سے راہ راست پر نہ آئیں ، اچھی باتوں پر عمل نہ کریں اور برے اخلاق و عادات کے عادی بنتے جارہے ہوں تو انہیں سزا دینی چاہئے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال کے بچے کو نماز نہ پڑھنے پر مارنے کا حکم دیا ہے۔البتہ اگر دس سال سے کم عمر کے بچے ہوں تو انھیں حتی الامکان مارنے سے احتراز کرنا چاہئے اور اچھی طرح ترغیب اور باربار تاکید سے اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے۔
اسی طرح دس سال یا اس سے زیادہ عمر کے طلبہ کو بوقت ضرورت دوسری سزا بھی دے سکتے ہیں ، حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ الله جوبہت ہی نیک اور صالح خلیفہ گذرے ہیں، یہاں تک کہ بعض لوگوں نے ان کو خلیفۂ خامس مانا ہے ،ان کی تربیت كے لئے ان کے والد محترم نے صالح بن کیسان  رحمہ الله کو اتالیق مقرر کیا تھا، یہ بہت اچھے اور باصلا حیت عالم تھے، اور جہاں ان کی تعلیم کا خیال رکھتے تھے وہیں ان کی تربیت پربھی گہری نظررکھتے تھے، تاکہ وہ اسلامی اخلاق وعادات سے آراستہ ہو جائیں، اور انھیں کسی غلط چیز کی عادت نہ پڑے، اس سلسلہ میں وہ ذرا بھی تساہلی ا ورسستی نہیں کرتے تھے۔
ایک مرتبہ عمر بن عبد العزیز رحمہ الله کی نماز با جماعت چھوٹ گئی توصالح بن کیسان رحمہ الله نے انھیں بلوایا اور پوچھا کہ نماز میں تاخیر کیوں ہوئی ؟انہوں نے جواب دیا کہ بال سنوار نے لگا تھا جس کی وجہ سے جماعت چھوٹ گئی، صالح بن کیسان رحمہ الله نے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ الله کے والد کے پاس اطلاع بھجوائی کہ آپ کے صاحبزادے اتنے زیادہ شوقین ہو گئے ہیں کہ بال سنوارنے میں جماعت چھوڑ دیتے ہیں۔اس پر ان کے والد محترم عبد العزیز  رحمہ اللہ نے ان کی یہ سزا متعین کی کہ ان کے با لوں کو منڈوا دیا جائے تا کہ نہ یہ بال رہیں اور نہ ان کے سنوارنے میں نماز چھوٹے ۔ ( انظرسیر اعلام النبلاء: ۵ ؍ ۶ ۱ ۱ )
دراصل اگرطلبہ وطالبات کو یوں ہی شتر بے مہار کی طرح چھوڑ دیا جائے اوران کی غلطیوں اور شرارتوں پر تنبیہ نہ کی جائے تو وہ بگڑ جا تے ہیں، اور ان کی صحیح تربیت نہیں ہو پاتی ہے ۔ اس واسطے بوقت ضرورت اصلاح کی خاطر انھیں تنبیہ کرنا اور سزا دینا چاہئے، البتہ بے تحاشہ پیٹناا وربلا ضرورت سزادینا غلط ہے ، حدیث نبوی ہے ’’مَنْ لَا يَرْحَمْ لَا يُرْحَمْ ‘‘ جو رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا ،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْيُؤ قِّرْ کَبِيْرَنَا وَيَرْحَمْ صَغِيْرَنَا‘‘ ( رواہ احمد :۲؍۲۰۷)جو ہم میں سے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کااحترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔
اس لئے جہاں بڑوں کا احترام واجب ہے وہیں چھوٹوں پر شفقت بھی ضروری ہے،اور طلبہ وطالبات کو بلاوجہ یا کسی ذاتی رنجش یا خاندانی عداوت کی بنا پر سزا دینااورمارنا درست نہیں، اسی طرح کسی کو ذاتی رنجش کی بناپر فیل کردینا ،یا اپنے بچوں اور بچیوں کو استحقاق سے زیادہ نمبرات دینا اور دوسرے بچوں کوکم نمبر دینا ،یہ ساری چیزیں غلط اور ظلم ہیں، ان کاقیامت کے روز حساب دینا ہوگا۔اس لئے اساتذہ کو ہر چیزمیں اعتدال وانصاف سے کام لینا چاہئے ۔
سزا میں اس کی بھی گنجائش ہے کہ کسی طالب علم کو بوقت ضرورت کلاس سے باہر کردیں، یا مدرسہ سے اس کا اخراج کردیں۔حضرت موسیٰ علىہ السلام  جب حضرت خضر  رحمہ الله کے پاس حصول علم كے لئے تشریف لے گئے تو انھوں نے یہ شرط رکھی کہ جو کچھ میں کروں اسے صرف دیکھنا اور اعتراض وتنقید نہ کر نا ۔ بلکہ میرے بتانے سے پہلے اس چیز کے بارے میں سوال بھی نہ کرنا۔مگر حضرت موسی      جیسے جلالی پیغمبر بھلا کہاں صبر کرپاتے، چنانچہ جب دونوں آدمی کشتی میں سوار ہوئے تو ملاح نے انہیں بزرگ لوگ سمجھ کر ان سے کرایا نہیں لیا،مگر حضرت خضر رحمہ الله نے کشتی کا ایک تختہ توڑ دیا، اس پرحضرت موسیٰ        سے صبر نہ ہوسکااوربول پڑے: ’’آ پ کا عمل بڑا عجیب ہے، کیا آپ لوگوں کو ڈبونا چاہتے ہیں‘‘؟ حضرت خضر  رحمہ اللہ نے کہا :’ ’ کیامیں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے؟‘‘ حضرت موسی علىہ السلام  نے فوراً معذرت پیش کی، مگرآگے بڑھے تو حضرت خضر رحمہ الله نے ایک بچے کو ما رڈالا، حضرت موسی علىہ السلام  کو پھر صبر نہ ہوا، اورکہا :آپ نے ایک معصوم بچے کو ناحق مار ڈالا، آپ نے غلط کیا،حضرت خضر  رحمہ اللہ نے کہا:’’ کیا میں نے تم سے کہا نہیں تھاکہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے‘‘؟ حضرت موسی  علىہ السلام  نے پھر معافی مانگی، اور کہاکہ اگر آئندہ مجھ سے ایسی غلطی ہوئی تو آپ اپنے ساتھ نہ رکھئے گا، پھر دونوں آگے بڑھے اور ایک بستی میں پہنچے جہاں کے لوگوں نے درخواست کے باوجود ان کی ضیافت سے انکار کردیا۔مگر حضرت خضر رحمہ الله نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گرنے کے قریب تھی، اور اس کو درست کرنے لگے ، حضرت موسی علىہ السلام کو پھر صبر نہ ہوا،ا ور کہنے لگے :’’اگر آپ چاہتے تو اس کی مزدوری لے سکتے تھے‘‘ حضرت خضر  رحمہ الله نے فرمایا :قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْْنِیْ وَبَيْْنِکَ سَأُنَبِّئُکَ بِتَأْوِيْلِ مَا لَمْ تَسْتَطِع عَّلَيْهِ صَبْراً (الكهف: ٧٨)یہ ہمارے اور آپ کے درمیان جدائی ہے۔ آپ جن باتوں پر صبر نہیں کر سکے میں ان کی تشریح آپ کے سامنے کروں گا۔ اور پھر ان کی تشریح کرتے ہوئے ان کی حکمتیں بتائیں۔ (انظر سورہ الکہف:۶۶۔۸۲)
اسی طرح طلبہ وطالبات کو بھی کسی غلطی پر تین یا اس سے زائد مرتبہ تنبیہ اورمعاف کر نے کے بعد خارج کرسکتے ہیں ۔لیکن یا د رہے کہ ہراستاذ نہ خضر  رحمہ اللہ ہے اور نہ ہرطالب علم حضرت موسیٰ، مگر بہر حال اس سے بوقت ضرورت طلبہ کے اخراج کا جواز اور ثبوت ملتا ہے ، ا ور جب یہ بات واضح ہوجائے کہ کسی طالب علم یا طالبہ کامدرسہ میں رکھنا بے فائدہ ہے، بلکہ اس کا رکھنا مدرسہ اور دوسرے طلبہ و طالبات کے لئے نقصان دہ ہے، تو ایسی صورت میں اس کا اخراج کیا جا سکتا ہے۔
جس طرح ہسپتال میں جب ڈاکٹر کسی مریض کے علاج سے مایوس ہو جاتے ہیں تو اس کا ڈسچارج کر دیتے ہیں اور اس کے گھر والوں سے کہہ دیتے ہیں کہ اس کا علاج یہاں نہیں ہو سکتا اسے یہاں سے لے جائیے ۔ اور گھر رکھئے یا کسی بڑ ے ڈاکٹر کو دکھائیے ،اسی طرح جب کسی طالب علم کی اصلاح سے اہل مدرسہ مایوس ہو جائیں تو اس کا اخراج کر سکتے ہیں۔
سزا دینے میں اس بات کابھی لحاظ رکھنا چاہئے کہ جرم کیسا ہے؟ اور کب اور کن حالات میں اس جرم کا وقوع ہوا ہے؟ مثلاً کسی طالب علم نے سبق یاد نہیں کیا تو آپ اسے پہلے بلاکر سمجھائیں کہ تمہارا یہ عمل غلط ہے ، اگر سبق یاد نہیں کرو گے تو تمہارے اندر کچھ بھی علمی لیاقت نہیں پیدا ہو گی، اگر کسی کے والد عالم ہیں تو اسے یہ بھی سمجھائیں کہ تمہارے والد اتنے بڑے عالم ہیں ، تمہیں تو ان کا جانشین اور اپنے گھر کا روشن چراغ بننا چاہئے ، نہ کہ چراغ تلے اندھیرا ہو۔ پھر بھی وہ اپنی اصلاح نہ کرے تو سزا دے سکتے ہیں۔
اگر کبھی کوئی طالب علم ایسی غلطی کرے جس پر اگر اسے برسر عام نہ سزا دی جائے تو اس کے نقصانات عام ہونے اور اس کے دوسرے طلبہ پر غلط اثرات پڑنے کا قوی اندیشہ ہو تو اسے برسر عام سزا دینی چاہئے۔ جیسے کوئی طالب علم اپنے کسی استاذ یا ادارہ کے ذمہ دار سے سب کے سامنے جھگڑا اور ہاتھا پائی کرے تو مشورہ کے بعد اسے سب کے سامنے سزا دینی چاہئے، تاکہ دوسرے طلبہ و طالبات کو ایسی حرکت کرنے کی جر أت نہ ہو ۔شریعت اسلامیہ میں بھی بہت ساری سزائیں ایسی ہیں جن کو برسرعام دینے کا حکم ہے ۔
اور اگر جرم ایساہے کہ تنہائی میں بھی سزا دینے یا تنبیہ کرنے سے اصلاح ہو سکتی ہے تو بلاوجہ سب کے سامنے زجر وتوبیخ کر کے یا سزا دے کرطالب علم کی بے عزتی نہیں کرنی چاہئے، ہشام بن عبد الملک نے اپنے بچے کے اتالیق سے کہا تھا: ’’اِذَا سَمِعْتَ مِنْهُ الْکَلِمَةَ الْعَوْرَاء فِيْ الْمَجْلِسِ بَيْنَ جَمَاعَةٍ فَلاتُؤنِّبُهُ لِتُخْجِلَهُ،وَعَسیٰ اَنْ يَنْصُرَخَطَأهُ فَيَکُوْنَ نَصْرُهُ لِلْخَطَأ أقْبَحَ مِنْ اِبْتِدْاءِهِ بِهِ،وَلٰکِنْ اِحْفَظْهَا عَلَيهِ فَاِذَا خَلافَرُدَّهُ عَنْهَا.(الدین والعلم:ص۲۱)
جب تم میرے بچے سے مجلس میں کوئی غلط بات سنو تو سب کے سامنے ہی اس کی سرزنش کر کے شرمندہ نہ کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے وہ اپنی غلطی کی تائید کرنے لگے، تو اس کا اپنی غلطی پر اصرار کرنا غلطی کی ا بتدا سے زیادہ قبیح ہو۔بلکہ جب کوئی غلطی دیکھو تو یاد رکھو اور جب تنہائی میں ملے تو سمجھا دو ۔
کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ اگرطالب علم کو تنہائی میں بلا کرسمجھا دیجئے تو اس کا بہت اچھا اثر ہو تا ہے ، اور وہ فوراً اپنی غلطی کا اقرار کر کے آئندہ نہ کرنے کا عہد کرلیتا ہے ،لیکن اگر مجلس میں اسے ٹوک دیجئے تو وہ اور ضد کرنے لگتا ہے کہ اب تو ہماری بے عزتی ہو ہی گئی ہے، اس واسطے اب ہم اسی طرح کریں گے، دیکھتے ہیں کہ یہ ہم کوکتناڈانٹتے مارتے اور سزا دیتے ہیں۔
بہرحال سزا دینے میں موقع ومحل، جرم کی نوعیت اور حالات وغیرہ کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، اور جہاں سمجھانے سے کام چل جائے وہاں سزا نہیں دینی چاہئے، جہاں صرف زجر و توبیخ کی ضرورت ہو وہاں مارنا نہیں چاہئے،اور جہاں تنہائی میں سزا دینے سے اصلاح ہو جائے وہاں سب کے سا منے سزا نہیں دینی چاہئے۔ اور نہ بلا وجہ اخراج کرنا چاہئے۔ بلکہ ایک والد کی طر ح ہمیشہ ادارہ اور بچوں کی مصلحت کو ملحوظ رکھنا چاہئے، سزا برائے اصلاح ہونی چاہئے، برائے تعذیب نہیں۔
باب رابع
مختلف کتابوں کی تدریس کے طریقے
تفسیر اور علوم قرآن کی تدریس کا منہج
ہندوستان میں اکثر جا معات اورمدارس اسلامیہ میں ترجمہ و تفسیر قرآن کی جو کتا بیں پڑھا ئی جاتی ہیں انھیں تین مرحلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
(۱) ترجمۃ معانی القرآن([1]) کا مرحلہ:اس مرحلہ میں درس کے وقت طلبہ کے پاس ترجمہ و تفسیر کی کوئی کتاب نہیں ہوتی، صرف معرّ یٰ قرآن کریم رہتا ہے، اور عموماً مدرس بھی اپنے سامنے صرف معرّ یٰ قرآن ہی رکھتا ہے، اور ازخود آیات کے معانی کا ترجمہ اور تفسیر کرتا ، اور مفردات کے معانی ، وا حد ، جمع، اور صیغے وغیرہ بتاتا ہے ،نیز طلبہ بھی عمر ، علم اور عقل و فہم کے اعتبار سے ابتدائی مرحلہ میں رہتے ہیں۔
(۲) تفسیر جلالین کی تدریس کا مرحلہ: اس مرحلہ میں مدرس اور طلبہ کے سامنے جلال الدین سیوطی اور جلال الدین محلی کی لکھی ہوئی یہ مختصر تفسیر ہوتی ہے ۔اور مدرس اسی کی عبارتوں کی تشریح و توضیح کرتا ہے۔
(۳) تفسیر فتح القدیر للشوکانی اور تفسیر ابن کثیر کی تدریس کا مرحلہ:اس مرحلہ میں اساتذہ اور طلبہ کے سامنے تفسیر کی یہ دونوں مطول کتابیں ہو تی ہیں جن میں متنوع قسم کے تفصیلی معلومات ہیں۔
ترجمۃ معانی القرآن کی تدریس کا منہج
(۱) ترجمہ معانی القرآن کادرس شروع کرنے سے پہلے بطور تمہید قرآن مجید کے مقام ومرتبہ اور اس کے فضائل کو بیان کیا جائے اوراحترام مصحف کے وجوب اورآداب تلاوت پر روشنی ڈالی جائے اور یہ بتایا جا ئے کہ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء تھے اسی طرح قرآن بھی تمام آسمانی کتابوں کا خاتم ہے ، اور تورات و انجیل وغیرہ آسمانی کتابیں خاص خاص قوم وعلاقہ کے لئے نازل کی گئی تھیں، لیکن جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتمام انس و جن کے لئے مبعوث فرمایا گیا اسی طرح قرآن کریم کو تمام انس و جن کے لئے تا قیا م قیامت دستور زندگی اور کتاب ہدایت بنا کر نازل کیا گیا ہے ا ور یہ کتاب بہت ہی مقدس ہے، لہٰذا اس کا احترام کرنا اور اس کو پڑھتے وقت اس کی تلاوت کے آداب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
فضائل قرآن اور آداب تلاوت کے موضوع پر علامہ ابن کثیر کا ایک رسالہ ہے جو تفسیر ابن کثیر کے آخر میں مطبوع ہے اور الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی میں بھی اس کا مفصل بیان ہے۔
(۲)قر آن مجید کے ترجمہ اور معانی ومطالب کو جاننے اور سمجھنے کی ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا جائے کہ قرآن کے معانی و مطالب کو سمجھے بغیراس کے نزول کا اصل مقصد حاصل نہیں ہوتا۔
(۳)جن آیات کا درس دینا ہو پہلے ان کی تلاوت ترتیل وتجوید کے ساتھ کرائی جائے، ایک طالب علم تلاوت کرے اور تمام طلبہ توجہ سے سنیں اور اگر طالب علم سے تلاوت میں کہیں غلطی ہو تو استاذ اصلاح کرے۔ تلاوت کے وقت استاذ اور طلبہ ایسا انداز اختیار کریں کہ احساس ہو کہ کوئی بڑی عظیم الشان اور مقدس کتاب پڑھی جارہی ہے۔بہتر یہ ہے کہ ہر روز ایک نئے طالب علم سے تلاوت کرائی جائے ، تاکہ سب کا ناظرہ بھی صحیح ہو جائے۔ اور سب کو مجلس میں بے خوف و خطر تلاوت کرنے کی جرأت ہو اور جھجھک ختم ہوجائے۔
(۴)جس سورہ کا درس دیں شروع میں اس سورہ کا نام اور وجہ تسمیہ بتا ئیں، اور وہ سورت مکی ہے یا مدنی اس کی بھی توضیح کریں، اور مکی و مدنی کا کیا مطلب ہے ابتدا ء میں ا س پر بھی روشنی ڈالی جائے۔
(۵)جن سورتوں اورآیات کے فضائل میں صحیح احادیث وآثار وارد ہوں ان کے فضائل بھی ان احادیث وآثار کی روشنی میں بتائے جائیں۔
(۶)سورتوں اورآیات کے مرکزی مضمون کو بتایا جائے، مثلاً اس کا مرکزی مضمون توحید کا اثبات اور شرک کی تردید ہے، یاقیامت کا بیان ہے وغیرہ وغیرہ۔
(۷) آیات کے مفردات کی تشریح کی جائے اور ان کے معانی، واحد ،جمع ،صیغے، ابواب اور اصل مادہ کو بتا یا جائے۔
(۸) اہم اور ضروری مقامات پرنحوی صرفی ترکیب ،جملہ اسمیہ ،جملہ فعلیہ، صفت موصو ف ، مضا ف مضاف الیہ،فاعل ، مفعول اور ضمیروں کے مراجع وغیرہ بھی بتائیں۔
(۹) آیتوں کا پہلے لفظی اور پھر بامحاورہ ترجمہ کیا جائے ۔
(۱۰)جن آیتوں اور سورتوں کی شان نزول ہو ان کی شان نزول بھی بتائی جائے ،کیونکہ اس سے ان کے معانی کے سمجھنے میں بڑی مدد ملتی اورسہولت ہو تی ہے۔
(۱۱)آیتوں کی تفسیر و تشریح کرتے وقت یہ منہج اختیار کیا جائے کہ پہلیقرآن کی تفسیر قرآن سے، پھر احادیث نبویہ سے ،پھر آثار صحابہ ا و ر علماء تابعین ودیگر ائمہ جیسے مجاہد،قتادہ، مقاتل وغیرہ کے اقوال سے کی جائے۔ اور تفسیر ماثورکو چھوڑ کر تفسیربالرأی کو اختیار نہ کیاجائے۔
(۱۲)اگر بظاہر کسی آیت کا تعارض کسی دوسری آیت یا حدیث سے نظرآئے تو اس تعارض کو دفع کیا جائے اورتطبیق کی صورت بتائی جائے۔
(۱۳)جدید مسائل وحالات کے بارے میں قرآن کے مخفی اشاروں اور ہدایتوں پر حسب ضرورت روشنی ڈالی جائے ۔
(۱۴)سورتوں وآیتوں میں جو باہمی ربط اور مناسبت ہے اس کی وضاحت کی جائے ،مگر تکلف سے کام نہ لیا جائے۔
(۱۵)آیات سے عقائد ، عبادات ، معاملات اور اخلاقیات وغیرہ کے جو مسائل مستنبط ہوتے ہیں اوران میں عبرت و موعظت کی جو باتیں ہیں ان پرروشنی ڈالی جائے۔
نوٹ:۱- ثانی ،ثالث اور رابع کے طلبہ کے معیار اور عمر میں جو فرق ہوتا ہے اس کا لحاظ کیا جائے۔اور ہر جماعت کے طلبہ کو معلومات ان کے معیار کے اعتبارسے دئے جائیں۔
۲-  اگرطلبہ کو کوئی اشکال ہو یا وہ کچھ نہ سمجھ پائیں اور پوچھنا چاہیں تو انھیں اس کا پورا پوراموقع دیا جائے اور فراخ دلی و وسعت ظرفی سے ان کے سوالات کے جوابات دئے جائیں۔
۳-اساتذہ اور طلبہ دونوں ضروری معلومات کو نوٹ کرنے كے لئے کا پیاں رکھیں اور روزانہ ضروری چیزیں نوٹ کر لیا کریں ۔
۴- اساتذہ ضروری چیزیں طلبہ کو لازمی طور سے نوٹ کرادیں۔ اور کبھی کبھی ان کی کاپیاں چیک کر لیا کریں،تا کہ معلوم ہو سکے کہ وہ صحیح اور برابرلکھ رہے ہیں یا نہیں۔کوتاہی کی صورت میں ترغیب وترہیب، اورمناسب تبنیہ سے کام لیں۔
مراجع ومصادر:اساتذہ بطور مراجع ومصادر تفسیر ابن کثیر،فتح القدیر للشوکانی،المفردات للراغب الأصفہانی،احسن التفاسیر للشیخ احمد حسن الدہلوی،احسن البیان:ترجمہ مولانا محمد صاحب جو نا گڑھی و تفسیرحافظ صلاح الدین حفظہ اللّٰہ،لغات القرآ ن ترتیب مولانا عبد الرشید نعمانی ومولاناعبد الدائم جلالی،لغات القرآن للشیخ راحت اللّٰہ مدنی،اشرف الحواشی للشیخ محمد عبدہ الفلاح ، قرآن مجید بدو ترجمہ مع تفسیر مولانا عبد القادر محدث دہلوی و حاشیہ مولانا عبد القہار دہلوی وغیرہ کتب تراجم و تفاسیر سے استفادہ کریں ۔
تفسیر جلالین کی تدریس کا منہج
اس کتاب کی تدریس کا منہج یہ ہے :
(۱)کتاب کے دونوں مصنفوں’’جلالین الدین سیوطی اور جلال الدین محلی شافعی‘‘کا تعارف کرایا جائے اور ان کے نام ،تاریخ پیدائش،اساتذہ و تلامذہ،علمی مقام ، خدمات، تصنیفات اور تاریخ وفات وغیرہ کے بارے میں قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی جائے۔
(۲)کتاب کا تعارف کرایا جائے اور اس کے منہج اور خصوصیات کو بتا یا جائے۔
(۳)طلبہ سے صحیح عبارت خوانی کرائی جائے اور اعراب کی غلطیوں کی اصلاح کی جائے ۔
(۴)عبارت کی اچھی طرح تشریح وتفہیم ہو۔
(۵)کتاب میں ذکرکردہ مسائل کی ۔ خواہ وہ تفسیر سے متعلق ہوں یا قرأت سے یا نحو، صرف ، بلا غۃ ، فقہ اور تاریخ وغیرہ سے۔ اچھی طرح توضیح کی جائے۔
(۶) کتاب میں جو مسائل مرجوح یا غلط ہیں ان کی نشاندہی کرکے صحیح مسائل کی وضاحت کی جائے ۔
(۷)قرآن کریم اور جلالین کی عبارت میں تمیز کر نے اور طلبہ کو جلالین کے طرز پر تفسیر کرنے کی کبھی کبھی مشق کرائی جائے۔
مراجع و مصادر:اس کے اساتذہ بطور مراجع: الجمل ،کمالین لمحمد نعیم،زبدہ التفسیر للدکتور محمد سلیمان الاشقر،تیسیر الکریم الرحمن للشیخ عبد الر حمن بن ناصر السعدی، فتح البیان للنواب صدیق حسن خان، تفسیرابن کثیر، تفسیر طبری، تفسیر قرطبی،اور دیگر معاون کتب سے بوقت ضرورت استفادہ کریں۔
نوٹ:اگر اصحاب مدارس اس کی جگہ زبدۃ التفسیر کو نصاب میں داخل کرلیں تومیرے خیال میں زیادہ بہتر ہو گا ۔کیونکہ یہ کتاب ان بہت سی غلطیوں سے پاک ہے جو تفسیر جلالین میں پائی جا تی ہیں۔
تفسیر ابن کثیر اورفتح القدیر للشوکانی کی تدریس کا منہج
ان دونوں کتابوں کی تدریس میں درج ذیل چیزوں کو ملحوظ رکھا جائے۔
(۱)مصنف کتاب کا تفصیلی تعارف کرایا جائے۔
(۲)کتاب کا تعارف کرایا جائے اور اس کے منہج وخصوصیات وغیرہ پر روشنی ڈالی جائے۔
(۳)صحیح عبارت خوانی اور عبارت فہمی پر خصوصی توجہ دی جائے۔
(۴)لفظ بالفظ ترجمہ کرنے کے بجائے کتاب میں وارد مسائل کی تشریح کی جائے۔اور جب طلبہ عبارت خوانی میں غلطی کریں تو عبارت ترجمہ وتشریح کے ساتھ سمجھا دی جائے۔
(۵)کتاب میں کوئی مسئلہ مرجوح یا غلط ہو تو اس کی وضاحت دلیل کے ساتھ کی جائے۔
مراجع ومصادر:بطور مراجع :تفسیر الطبری ،تفسیر القرطبی ،فتح البیان للنواب صدیق حسن خان، اضواء البیان للشنقیطی ودیگر کتب تفسیر سے استفادہ کیا جائے۔
روائع البیان کی تدریس کا منہج
اس کتاب کی تدریس کا مناسب طریقہ یہ ہے کہ:
(۱) پہلے بطورتمہید احکام القرآن کی چند مشہور کتابوں کا تعارف کرائیں اور اس قسم کی تفسیر کی کتابوں کی خصوصیات اور ان کے فوائد پر روشنی ڈالیں۔
(۲)جس محاضرہ کا درس ہو اس سے متعلق آیات کو پڑھ کر یا بورڈ پر لکھ کر ان کی مصنف کے طرز پر تفسیر وتشریح کریں اور جو احکام ان سے مستنبط ہو تے ہوں ان کو بتائیں۔
(۳)مسائل میں ائمہ کے اقوال اور ان کے دلائل کو بیان کرنے کے ساتھ راجح مذہب کی تعیین بھی دلائل کے ساتھ کریں۔
(۴)قرأت کے اختلاف سے جہاں مسائل میں اختلاف ہو تا ہے وہاں وجوہ قرأت پر بھی روشنی ڈالیں ۔
(۵)طلبہ کو تاکید کریں کہ وہ کتاب کی عبارت حل کر کے آئیں اور کوشش کے باوجود جو عبارت سمجھ میں نہ آ ئے اس کے بارے میں پوچھ لیں اور مدرس اس کی تشریح کرے۔
(۶)محاضرہ ختم ہونے کے بعد اگر کچھ وقت رہے تو کسی طالب علم سے عبارت خوانی کرائیں اور جہاں غلطی ہو تصحیح کریں۔
مراجع ومصادر:بطور مراجع تفسیر القرطبی ، احکام القرآن للامام الشافعی، احکام القرآن لابن العربی، احکام القرآن للجصاص ،فتح القدیر للشوکانی،فتح البیان للقنوجی، اضواء البیان للشنقیطی وغیرہ کا مطالعہ کریں۔
فتح المنان بتسہیل الإتقان کی تدریس کا منہج
(۱) علوم القرآن کی اہمیت وضرورت اور اس کی تاریخ پر مختصر روشنی ڈالیں۔
(۲) فن علوم القرآن کی مشہور کتابوں کا تعارف کرائیں۔
(۳) فتح المنان اور الاتقان کے مؤلفین کی مختصر سوانح حیات بتائیں۔
(۴)نصاب کے لئے منتخب کردہ ابواب کی نشاندہی کریں۔
(۵)غریب الفاظ اور عبارت کا ترجمہ و تشریح کریں۔
(۶) اگر موجودہ درس کا سابقہ درس سے ربط و تعلق ہو تو دونوں درسوں کا خلاصہ ذکر کر کے ربط و تعلق کی وضاحت کریں۔
(۷) زیادہ اہمیت کے حامل اسباق و مسائل کی جانب طلبہ کی توجہ مبذول کرائیں۔
(۸)کورس کو مکمل کرنے کی کوشش کریں۔
مصادر و مراجع : الاتقان فی علوم القرآن ،مباحث فی علوم القرآن، البرھان فی علوم القرآن وغیرہ کتب سے استفادہ کریں۔
التفسیر والمفسرون کی تدریس کا منہج
(۱) کتاب اور مؤلف کا مختصر تعارف کرائیں ۔
(۲)علم تاریخ التفسیر کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالیں۔
(۳)طلبہ سے عبارت خوانی کرائیں اور اعراب کی غلطیوں کی اصلاح کریں۔
(۴)غریب الفاظ اور عبارت کا ترجمہ اور تشریح کریں۔
(۵) درس کا خلاصہ اپنے الفاظ میں بیان کریں۔
(۶) پڑھانے کے بعد درس کے متعلق طلبہ سے سولات کریں۔
(۷) کورس مقررہ وقت پر ختم کرنے کی کوشش کریں۔
(۸)طلبہ کو سوالات کا موقع دیں، اور ان کے سوالات کا تسلی بخش جواب دیں۔
کتب حدیث کی تدریس کا منہج
بلوغ المرام کی تدریس کامنہج
(۱) بطور تمہید حدیث کا لغوی و اصطلاحی معنی بتایا جائے اور اس کے مقام اور تشریعی اہمیت پر روشنی ڈالی جائے۔
(۲) مؤلف کتاب حافظ ابن حجر ؒ کا مختصر تعارف کرایا جائے اور ان کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالی جائے۔
(۳)کتاب کا تعارف کرایا جائے جس میں اس کے نام ،مرتبہ،اور خصوصیات پر روشنی ڈالی جائے۔ اور بتایا جائے کہ یہ کتب حدیث کی قسموں میں سے کس قسم میں سے ہے۔
(۴) کتاب کے مقدمہ کی اچھی طرح تشریح کریں اور اس میں وارد مصطلحات کو زبانی یاد کرائیں۔
(۵) جن مصطلحات حدیثیہ کا ذکر کتاب میں آیا ہے ان کی تشریح کریں اور حفظ کرائیں۔
(۶)صحیح عبارت خوانی کرائیں اور غلطیوں کی اصلاح کریں ۔
(۷) حدیثوں کی روایت کرنے والے صحابہ کرام کا مختصر تعارف کرائیں اور شروع میں صحابہ کے مقام و مرتبہ پر بھی مختصر روشنی ڈالیں۔
(۸) پہلے حدیث میں وارد کلمات غریبہ کی تشریح کریں اور پھر پوری حدیث کا ترجمہ کر کے اس کے مفہوم کی وضاحت کریں۔
(۹) حدیث سے مستنبط ہو نے والے مسائل کی جانب اشارہ کریں تاکہ طلبہ کواستنباط مسائل کا طریقہ معلوم ہو سکے ۔ نیز باب سے اس کی مناسبت بھی بتائیں۔
(۱۰) اگر حدیث کی شانِ ورود ہو تو اس کو بھی بتائیں۔
(۱۱) جن حدیثوں کا بظاہر کسی دوسری حدیث یا آیت سے تعارض ہو ان کے تعارض کو دفع کریں اور تطبیق یا ترجیح کی صورت بتائیں، مگر زیادہ تفصیل میں نہ جائیں۔
(۱۲) یہ کتاب دوسری اور تیسری جماعت میں مقرر ہے اور دونوں جماعتوں میں چالیس چالیس حدیثوں کا حفظ بھی ہے، شروع سال میں ہی ان حدیثوں کا انتخاب کر کے طلبہ کو بتا دیں اور تھوڑا تھوڑا کر کے انھیں یاد کراتے اور سنتے رہیں ۔
مراجع ومصادر:سبل السلام للصنعانی، فتح العلام للنواب صدیق حسن خان ،حاشیہ الدھلوی، فقہ الاسلام للشیخ شیبۃ الحمد، ترجمہ بلوغ المرام للشیخ عبد التواب ملتانی ،اتحاف الکرام للشیخ صفی الرحمن ا لمبارکفوری وغیرہ کتابوں کو مطالعہ میں رکھیں ۔ بوقت ضرورت نیل الاوطار للشوکانی وغیرہ سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
مشکاۃ المصابیح کی تدریس کامنہج
(۱)حدیث کی تعریف ، اس کے اقسام ،اور اس کی تشریعی حیثیت پر ذرا تفصیل سے روشنی ڈالی جائے ۔
(۲)مشکاۃ اور مصابیح کے مؤلفین کی مختصر سوانح حیات اور علمی خدمات کا تعارف کرایا جا ئے ۔
(۳)دونوں کتابوں کا تفصیلی تعارف کرایا جائے اوردونوں کے منہج کے فرق کو بیان کیا جائے۔
(۴) مقدمۃالکتاب کی اچھی طرح تشریح و توضیح کریں۔
(۵) جماعت رابعہ میں شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کا مقدمہ بھی نصاب میں داخل ہے، اس کی تشریح کے ساتھ مصطلحات کو زبانی یاد کرا ئیں۔ بہتر ہے کہ ہفتہ میں ایک روز اس کی گھنٹی رکھیں۔
(۶) عبارت خوانی اور اس کی تصحیح ہو ،مفردات کی تشریح اور پھر مکمل حدیث کا ترجمہ ا ور پھر اس کے مفہوم کی وضاحت اور تشریح کی جائے۔
(۷)اگر کسی حدیث کی شان ورود ہو تو اس کو بھی بیان کریں۔
(۸) جہاں تعارض ہو وہاں رفع تعارض قدرے تفصیل سے کریں۔
(۹) احادیث سے مسائل کے استنباط کی جانب رہنمائی کی جائے۔
(۱۰)احادیث ضعیفہ کے ضعف اور ممکن ہو تو اسباب ضعف کو بھی بیان کریں۔
(۱۱)ہرسال ابتدا میں ہی مدرسین حفظ کے لئے چالیس حدیثوں کی تعیین کردیں اور سال بھر تھوڑا تھوڑا کر کے یاد کراتے اور سنتے رہیں۔
(۱۲)اختلافی مسائل میں( خاص طور سے جن کا ذکر حاشیہ میں ہے ) راجح قول کو مع دلیل بیان کریں۔
مراجع ومصادر:مرعا ۃ المفاتیح للشیخ عبید اللّٰہ المبارکفوری،المرقاۃ للملاعلی القاری،انوارالمصابیح للشیخ عبد السلام البستوی۔مظاہرحق للنواب قطب الدین الدہلوی،مشکاۃ المصابیح بتحقیق الشیخ ناصر الدین الألبانی وغیرہ کا مطالعہ کریں ۔ اور کتاب کا حاشیہ بالاستیعاب پڑھیں، المجلد الثانی میں اگر مذکورہ کتابوں سے کام نہ چلے تو نیل الاوطارللشوکانی اور کتب ستہ کی شرحوں سے مدد لیں۔
نوٹ : عبد الحکیم خان اختر شاہ جہاں پوری کے ترجمۂ مشکاۃسے اجتناب کریں ۔ یہ شخص پکا بدعتی ہے اور ترجمہ میں اس نے بہت جگہ تحریف سے کام لیا ہے، اگر اسے مطالعہ میں رکھیں تو بہت ہی تحقیق سے کام لیں، اور طلبہ کو بھی اس کی غلطیوں اور خطرناکیوں سے متنبہ کر تے رہیں۔
جامع الترمذی کی تدریس کا منہج
(۱) بطور تمہید مختصراً تدوین حدیث کی تاریخ پر روشنی ڈالیں اورکتب حدیث کے اقسام مع امثلہ بتائیں۔
(۲) مؤلف کتاب(امام ترمذی  رحمہ الله) کا تفصیلی تعارف کرائیں ۔
(۳) کتاب کا تعارف کرائیں جس میں ، کتب ستہ میں اس کے مقام ، اس کے منہج، اسکی قبولیت اور خصوصیات وغیرہ پر تفصیل سے روشنی ڈالیں۔
(۴) اسناد اور اس کی اہمیت کا بیان اور سند کے پڑھنے اور لکھنے میں فرق کی وضاحت ہو اور حدثنا،اخبرنا،سمعت ،عن، قال، روی وغیرہ الفاظ روایت اور تحویل وغیرہ کی تشریح کریں ۔
(۵) امام ترمذی رحمہ الله نے جن اصطلاحات کا اس کتاب میں تذکرہ کیا ہے ان کی تشریح و توضیح مع امثلہ کریں ۔
(۶) مشہور رواۃ حدیث اور ضعفاء ومدلسین کے بارے میں ضروری معلومات بہم پہونچائیں ۔
(۷) مشکل احادیث کا ترجمہ وتشریح اور ان سے مسائل کا استنباط کریں ۔
(۸) امام ترمذی رحمہ الله نے حدیثوں کے بعد فقہاء کے اقوال بھی ذکر کئے ہیں،ان مسائل میں راجح قول کی تعیین کریں، اور اس کے خلاف وارد حدیثوں کا جواب دیں ۔
(۹) جہاں حدیثوں میں تعارض نظر آئے وہاں تعارض کو دفع کریں ۔
مراجع ومصادر : تحفۃ الأحوذی للشیخ عبد الرحمن المبارکفوری ، عارضۃالأحوذی لابن العربی المالکی،جامع الترمذی بتحقیق وتعلیق احمد شاکر، مقدمہ تحفۃ الأحوذی ، اور علل الترمذی وغیرہ کا مطالعہ کریں ۔ اور دکتورنور الدین عتر وغیرہ نے جو امام ترمذیؒ اور ان کے جامع کے بارے میں لکھا ہے ان سے بھی استفادہ کریں ۔
سنن ابی داؤدکی تدریس کامنہج
(۱)بطور تمہید امام ابو داود رحمہ الله کا تعارف کرائیں،جس میں ان کے نام ونسب ،تاریخ پیدائش، مشہور اساتذہ وتلامذہ، تالیفات، مذہب ،عقیدہ ،علمی خدمات ومقام اور تاریخ وفات وغیرہ پر روشنی ڈالیں۔
(۲) کتاب کا تعارف کرائیں, جس میں سنن کی تعریف، کتاب کی و جہ تا لیف، مدت تالیف ، کتب ستہ میں اس کا مقام ، اس کی حدیثوں کا حکم ، اس کے رواۃ کا درجہ ،اس کی خصوصیات ، سکوت ابی داودومنذری کاحکم وغیرہ بیان کریں ۔
(۳) اس کے علاوہ جامع الترمذی کے طریقۂ تدریس کے سلسلہ میں جو باتیں ذکر کی گئی ہیں ان تمام چیزوں کویہاں بھی ملحوظ رکھیں ۔
مراجع ومصادر: معالم السنن للخطابی ،مختصر ابی داود للمنذری ، تہذیب ابی داود وایضاح مشکلاتہ لابن القیم، عون المعبود للعلامۃ محمد شمس الحق العظیم آبادی، بذل المجہودللشیخ خلیل احمد السھا رنفوری، اور رسالۃ أبی دا ودالیٰ اھل مکۃکا مطالعہ کریں، اگر ممکن ہو تویہ رسالہ طلبہ کو بھی پڑھادیں ، اس کا مختصر، سنن ابی داؤدطبعہ ہندیہ کے شروع میں موجود ہے ۔حاشیہ کتاب بھی مفید ہے ۔ عون المعبود کا خاتمہ اور مختصر المنذری کا مقدمہ قابل توجہ ہے ۔ کتاب ا لسنۃ پڑھاتے وقت شرح العقیدۃالطحاویہ سے بھی مدد لیں ۔ اور احادیث کی تصحیح وتضعیف كے لئے علامہ البانی  رحمہ الله کے صحیح ابی داود، ضعیف ابی داود اور عزت عبید الدعاس وعادل السید کی تعلیقات سے استفادہ کریں۔
سنن النسائی کی تدریس کا منہج
(۱) مؤلف کا تعارف کرائیں، جس میں ان کے نام و نسب ، تاریخ ولادت ، تعلیم و تربیت ، اسا تذہ و تلامذہ،رحلات علمیہ ، علمی مقام ، ثناء العلماء ، زہدو ورع ، عقیدہ و مذہب ، فقہ و اجتہاد، تصنیفات وعلمی خدمات، ابتلاء و آزمائش،اور سبب و تاریخ وفات وغیرہ پر روشنی ڈالیں۔
(۲) کتاب کا تعارف کرائیں جس میں اس کا نام ، السنن الکبری و الصغری کا فرق ، صغری کی وجہ تالیف ، اس کا کتب ستہ میں مقام و خصوصیات ، اور مصنف کا منہج وغیرہ بتائیں۔
(۳) اس کی تدریس کا منہج بھی وہی ہے جو سنن ابی داؤد اور جامع الترمذی کا ہے۔
مراجع ومصادر:التعلیقات السلفیۃ للشیخ محمد عطاء اللہ الفوجیانی ، زھر الربیٰ علی المجتنیٰ للسیوطی ،اورحاشیۃ السندی وغیرہ کا مطالعہ کریں،حاشیۃ الکتاب المطبوع بالھند اور اردو شروح سے بھی استفادہ کرسکتے ہیں،السنن الکبری للنسائی کا مقدمہ ۔جو الدار القیّمہ بھیونڈی سے مطبوع ہے ۔اور شیخ وصی اللہ محمد عباس کے ماجستیر کی بحث بھی اگر دستیاب ہو تو زیرمطالعہ رکھیں ۔
موطا امام مالک کی تدریس کا منہج
(۱) مولف کا تعارف کرائیں جس میں نام و نسب ، اساتذہ و تلامذہ، تصنیفات و علمی خدمات، فقہ اور حدیث میں ان کا مقام ، ابتلاء و آزمائش، مناقب و قبولیت ، تاریخ ولادت و وفات وغیرہ بیان کریں۔
(۲) کتاب کا تعارف: جس میں نام ، وجہ تسمیہ، قبولیت و خصوصیات، اور کتب حدیث میں اس کا درجہ، بلاغات مالک اور اجماع اہل مدینہ کا حکم، موطا امام مالک اور سنن ابن ماجہ میں سے کون کتب ستہ میں سے ہے؟ موطا امام مالک اور موطا امام محمد میں کیا فرق ہے ؟ وغیرہ نکات کو ذکر کریں۔
(۳) اس کی تدریس کا طریقہ بھی تقریباً جامع الترمذی اور سنن ابی ابوداود کی طرح ہے ۔
مراجع ومصادر:شرح الزرقانی،المنتقی للباجی، تنویر الحوالک علی مؤطا مالک للسیوطی ،المسوّیٰ،والمصفّیٰ للشاہ ولی اللّٰہ الد ھلوی، أوجزالمسالک للشیخ زکریا الکاندھلوی وغیرہ کا مطالعہ کریں۔ موطا امام محمد رحمہ الله کی شرح التعلیق الممجد للکنوی ،التمھید لإ بن عبد البر اگر دستیاب ہو ں تو ان کو بھی مطا لعہ میں رکھیں، طبعہ ھندیہ کا حاشیہ اور محمد فواد عبد الباقی کا محقق نسخہ بھی مفید ہے ، مترجم سے بھی استفادہ کرسکتے ہیں۔
صحیح البخاری کی تدریس کا منہج
(۱) بطور تمہیدتاریخ تدوین حدیث ، اقسام کتب حدیث اور محدثین کی خدمات کو بیان کر یں ۔
(۲) مؤلف کا تفصیلی تعارف کرائیں، جس میں ان کے نام و نسب، تعلیم و تربیت،رحلات علمیۃ ، اساتذہ و تلامذہ، تصنیفات و تالیفات، عقیدہ و مذہب، ذہانت و فطانت، مختلف علوم و فنون میں مہارت و کمال، شہرت و قبولیت، اجتہاد و فقہ میں مقام،ابتلاء و آزمائش،اور تاریخ وفات وغیرہ امور پر روشنی ڈالیں ۔
(۳) کتاب کا تفصیلی تعا رف کرائیں،جس میں کتاب کا مکمل نام ،وجہ تالیف ،کتب حدیث میں اس کا مقام، اس کی مقبولیت وغیرہ پر روشنی ڈالیں، اورصحیح بخاری و صحیح مسلم میں موازنہ کریں۔
(۴)تعلیقات بخاری کا حکم اوران کے تعلیقاً روایت کرنے کے اسباب کا ذکر کریں۔
(۵)رواۃ بخاری کے مقام اورشروط بخاری کو تفصیلاًبیان کریں۔
(۶) مدلسین کا تعارف کرائیں، اور صحیح بخاری وغیرہ میں ان کی روایتوں کے حکم اور اسباب پر روشنی ڈالیں۔
(۷)متکلم فیہ رواۃا وراحادیث پر وارد ہونے والے اعتراضات کا مختصرجواب بتائیں ۔
(۸) ترجمۃالباب کی تشریح کرتے ہوئے اس سے احادیث کی مناسبت و مطابقت بتائیں۔
(۹)مشکل احادیث کا ترجمہ وتشریح کریں ۔
(۱۰)احادیث سے مسائل کا استنباط کریں۔
نوٹ :پہلی جلد میں کتاب الإیمان ،کتاب العلم اور کتاب الحج پر خصوصی توجہ دیں۔ اور دوسری جلد میں کتاب المغازی ،کتاب فضائل القرآن ،کتاب النکاح ،کتاب الطلاق اور کتاب التوحید پر خصوصی توجہ دیں۔
مراجع ومصادر:فتح الباری للحافظ ابن حجرالعسقلانی مع مقدمتہ ہدی الساری ،عمدۃ القاری للعلامۃ العینی ، اورعون الباری للنواب صدیق حسن کامطالعہ کریں، طبعہ ہندیہ کا حاشیہ بھی کا فی مفید ہے ، اور مولانا داود راز رحمہ الله کی شرح بخاری ، اور مولانا وحید الزماں رحمہ الله کی تیسیر الباری سے بھی بوقت ضرورت استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
مؤلف اورکتاب کے تعارف میں مقدمہ فتح الباری کا مطالعہ بے حد مفید ہے۔اس سلسلہ میں عشرون حدیثا من صحیح البخاری للشیخ عبد المحسن العبادسے بھی۔ اگر مل سکے تو۔ استفادہ کریں۔بخاری پڑھانے والے استاذ كے لئے سیرۃ البخاری للشیخ عبد السلام المبارکفوری کا مطا لعہ کرنابہت اہم ہے ، نیز الحطۃ فی ذکر صحاح الستہ للنواب صدیق حسن خان ، اور صحاح ستہ اور ان کے مولفین جو محمد عبدہ کی زیر ادارت تیار کی گئی ہے سے بھی استفادہ کریں۔
کتاب التوحید کی تدریس میں شیخ عبد اللہ الغنیمان کی شرح اورشرح العقیدۃ الطحاويۃ لابن ابی العز سے بھی مدد لی جا سکتی ہے ۔
صحیح بخاری کے ابواب و تراجم پر تحریر کردہ کتابوں، مثلاً المتواری فی تراجم البخاری لإ بن المنیر، شرح تراجم البخاری للشاہ ولی اللّٰہ الدہلوی ۔جوکہ طبعہ ہندیہ کے شروع میں مطبوع ہے ۔ الابوا ب والتراجم لصحیح البخای للشیخ محمد زکریا الکاندھلوی ۔ میں سے کم از کم ایک کتاب کو ضرور سامنے رکھیں ۔
صحیح مسلم کی تدریس کا منہج
(۱) مؤلف کتاب امام مسلم رحمہ الله کا تعارف اسی نہج پر جیسے دیگر محدثین کے بارے میں گذر چکا ہے کرائیں۔
(۲) صحیح مسلم کاتعارف: جس میں اس کا نام ،خصوصیات ،کتب حدیث میں اس کا مقام ، صحیح بخاری و مسلم کے منہج میں فرق وغیرہ کی وضاحت کریں اورنا قدین کے اعتراضات کا جواب دیں۔
(۳)مقدمہ الکتاب کی تدریس پر خصوصی توجہ دیں اور اس میں ذکر کردہ مسائل کی تشریح وتوضیح اس طرح کریں کہ طلبہ ساری باتیں اچھی طرح سمجھ جائیں اور ان کے ذہنوں میں کوئی اشکال باقی نہ رہے۔
(۴)مشکل احادیث کا ترجمہ وتشریح کریں۔
(۵)مسائل کا استنباط اورمشکل اسناد کی تشریح کریں۔
(۶) صحیح بخاری وغیرہ کی تدریس کے سلسلہ میں جو باتیں گزرچکی ہیں انھیں یہاں بھی ملحوظ رکھیں۔
نوٹ:جلد اول میں مقدمہ اور کتاب الإیمان پر خصوصی توجہ دیں ۔اور عقائد میں صحیح قول کی تعیین با لدلیل کریں۔
جلد دوم میں کتاب البیوع ،کتاب الحدوداورکتاب الزھد پر خصوصی توجہ دیں۔
مراجع ومصادر:المنھاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج‘‘للعلامہ النووی رحمہ الله ، السراج الوھا ج شرح لمختصر صحیح مسلم للمنذری مؤلفہ نواب صدیق حسن خان رحمہ الله ، فتح الملھم للشیخ شبیر احمد عثمانی رحمہ الله وغیرہ کتب کا مطالعہ کریں۔
تعارف کتاب كے لئے امام نووی رحمہ الله کا مقدمہ اور طبعہ ہندیہ کا مقدمہ ضرورسامنے رکھیں۔ اسی طرح علامہ ابن الصلاح کی کتابصیا نۃ صحیح مسلماورشیخ عبد المحسن العبادکی کتاب ’’عشرون حدیثا من صحیح مسلم‘‘ اور دکتور ربیع بن ہادی عمیر المدخلی کی کتاب ’’بین الامامین مسلم والدار قطنی‘‘ سے بھی استفادہ کریں۔الإلزامات والتتبع للدار قطنی بھی دستیاب ہوسکے تو ضرور دیکھ لیں، علا مہ وحید الزماں کے اردو ترجمہ سے بھی بوقت ضرو ر ت مد د لے سکتے ہیں۔
کتب مصطلح کی تدریس کا منہج
مصطلح کی کتابوں کو پڑھاتے وقت درج ذیل امور کا لحاظ رکھیں۔
(۱)علم مصطلح کی اہمیت وضرورت پر مختصر روشنی ڈالیں۔
(۲)مصنف کتاب کا مختصر تعارف کرائیں۔
(۳)کتاب کا تعارف کرائیں۔
(۴)عبارت خوانی ہو اور غلطیوں کی اصلاح کریں۔
(۵) مصطلحات اور قواعدو اصول کی مثالیں دے کر اچھی طرح تشریح کریں۔
(۶)عبارت کتاب کی تشریح وتوضیح کریں۔
مراجع ومصادر:فتح المغیث للسخاوی،فتح الباقی للعراقی،قواعد التحدیث للشیخ جمال الدین القاسمی،شرح قصب السکر فی نظم نخبۃ الفکر،الباعث الحثیث لإبن کثیرمع تعلیق احمد شاکر،توضیح الأ فکار للصنعانی،نزھۃ النظر للحافظ ابن حجر المطبوعۃ بالجامعۃ السلفےۃ.وغیرہ کا مطالعہ کریں۔
کتب تخریج و جرح و تعدیل کی تدریس کا منہج
(۱) علم جرح وتعدیل اور فن تخریج کی اہمیت پر روشنی ڈالیں۔
(۲) کتاب و مصنف کتاب کا تعارف کرائیں۔
(۳) کتاب کی عبارت خوانی کرائیں، اور غلطیوں کی اصلاح کریں۔
(۴) عبارت کا ترجمہ وتشریح کریں۔
(۵) مسائل کو اچھی طرح سمجھائیں اور یاد کرائیں۔
(۶) جرح و تعدیل ، تراجم اور حدیث کی کتابوں کا تعارف کراتے وقت طلبہ کو مکتبہ لے جا کر یہ کتابیں دکھائیں ۔
(۷) عملی طور سے رواۃ کے تراجم کا استخراج اور حدیثوں کی تخریج کرائیں۔
مصادر و مراجع : مقرر کردہ کتابوں میں بہت سے مصادر و مراجع کا تذکرہ ہے ، ان سے اور ان کے علاوہ دوسری قدیم وجدید کتابوں سے استفادہ کریں۔
الحد یث والمحدثون کی تدریس کا منہج
(۱) کتاب اور مؤلف کا مختصر تعارف کرائیں۔
(۲) علم تاریخ حدیث کی اہمیت پر روشنی ڈالیں۔
(۳) طلبہ سے عبارت خوانی کرائیں۔
(۴) غریب الفاظ اور عبارت کا ترجمہ اور تشریح کریں۔
(۵) درس کا خلاصہ زبانی اپنے الفاظ میں بیان کریں۔
(۶) درس سے متعلق طلبہ وطالبات سے سوالات کریں۔
(۷) مقررہ وقت سے کچھ پہلے ہی کورس مکمل کرنے کی کوشش کریں۔
(۸)طلبہ کو سوالات کا موقع دیں اور ان کے سوالات کا تسلی بخش جواب دیں۔
کتب فقہ کی تدریس کا منہج
الروضۃ الندیۃ للنواب صدیق حسن خان کی تدریس کا منہج
(۱)سب سے پہلے طلبہ کے سامنے فقہ کی تعریف،فضیلت ،اور اہمیت وضرورت پر روشنی ڈالیں، تاکہ طلبہ انشراح صدر اور شوق سے اس فن کوپڑھیں۔اور ضرورت محسوس کرتے ہو ئے اس میں مہارت حاصل کرنے كے لئے بھر پور محنت کریں۔
(۲)متن اور شرح دونوں کے مصنفین کا تفصیلی تعارف کرایا جائے۔
(۳)کتاب کا تعارف اور اس کے منہج کا بیان ہو۔
(۴) کتاب کو پڑھاتے وقت پہلے صحیح عبارت خوانی ہو، اس کے بعد استاذ پہلے زبانی مسئلہ کو اپنے الفاظ میں طلبہ کو سمجھا ئے اور پھر عبارت کی تشریح کرے۔
(۵) اختلافی مسائل میں راجح کی تعیین دلیلوں کے ساتھ کریں۔
(۶) جن احادیث کی تخریج کتاب میں نہ ہو ان کی مختصر تخریج کریں اور ان کی صحت اور ضعف کے بارے میں طلبہ کی رہنمائی کریں۔
(۷)جن مشہور فقہائے کرام کا نام کتاب میں آیا ہے ہو سکے تو ان کا مختصر تعارف بھی کرائیں۔
مراجع ومصادر:المغنی لإبن قدامۃ ،المجموع للنووی ،المحلی لإبن حزم، فتح القدیر لإبن الھمام ،بداےۃ المجتھد لإبن رشد ،نیل الأ وطار للشوکانی، سبل السلا م للصنعانی ،تلخیص الحبیر لإ بن حجر، ارواء الغلیل للأ لبانی وغیرہ کتب فقہ وفتاوی، اورشروح الحدیث وکتب التخریج سے استفادہ کریں۔
نوٹ:اس کتاب کی جگہ اگر ’’الوجیز فی فقہ السنۃ والکتاب العزیز‘‘ للشیخ عبد العظیم بن بدوی نصاب میں داخل کرلیں تو میرے خیال میں زیادہ بہتر ہوگا۔
بدايۃ المجتہد کی تدریس کا منہج
(۱) فقہ کی فضیلت اور اہمیت پر مفصل روشنی ڈالی جائے اور طلبہ کو اس کی ضرورت کا بھر پور احساس دلا یا جائے ۔
(۲)فقہ مقارن کی تعریف وتشریح کی جائے اور فقہ مقارن اور کسی خاص مسلک کے فقہ کا فرق بتایا جائے ۔اور کسی ایک مذہب کے تنگ دائرہ میں محدود و محبوس رہنے کے بجائے فقہ مقارن کے دراسہ کی افادیت وضرورت اور تمام ائمہ کی مجہودات اور ان کی گرا نقدر فقہی خدمات پر ردشنی ڈالی جائے اوران سے وسعت قلبی کے ساتھ استفادہ کرنے اور ادلۂ شرعیہ کی روشنی میں راجح کو معلوم کر کے اس پر عمل کرنے اور عصرحاضر کے جدید مسائل ومشاکل کو حل کر نے کی تر غیب د ی جا ئے ۔
(۳)فقہ مقارن کی مشہور مشہور کتابوں کا طلبہ کے سامنے تعارف کرایا جائے۔
(۴) مصنف اور کتاب کا تفصیلی تعارف ہواور مؤلف کے نام و نسب ، تعلیم و تربیت، اساتذہ و تلامذہ، علمی مقام،تعلمی وتصنیفی خدمات اور عقیدہ و مسلک وغیرہ پر روشنی ڈالی جائے اور کتاب کے منہج وخصوصیت اور افادیت وغیرہ کو بیان کیا جائے۔
(۵) کتاب کے مقدمہ کی تدریس لا زمی طور سے ہو اور اس میں جو اصولی مباحث ومصطلحات ہیں ان کی اچھی طرح مثالوں کے ساتھ تشریح وتوضیح کی جائے۔
(۶)کتاب پڑھاتے وقت صحیح عبارت خوانی اور زبانی مسئلہ کی توضیح کے بعد عبارت کی تشریح بھی ہو اور ذکراقوال ائمہ کے ساتھ راجح قول کی مع ادلہ وضاحت کی جائے۔
(۷)کتاب میں وارداحادیث کی مختصر تخریج کی جائے اور ان کی صحت وضعف پرروشنی ڈالی جائے ۔
(۸) جہاں مصنف نے ’’قال قوم‘‘ کہا ہے اگر ممکن ہو تو اس قول کے قائلین ائمہ کی وضاحت وتعیین کی جائے۔
(۹)اگر نسبت اقوال میں مصنف سے کہیں چوک ہوگئی ہو تو اس کی توضیح وتصحیح کی جائے۔
(۱۰) اسی طرح اگر ترجیح یا تخریج احادیث میں غلطی ہو تو اس کی بھی توضیح وتصحیح کی جائے۔
مراجع ومصادر:الروضۃ الندےۃ کے مراجع میں ذکر کردہ کتا بوں کے علاوہ المدونۃ الکبریٰ للامام مالک ،المنتقی شرح المؤطا للباجی، حاشیۃ الدسوقی، حاشےۃ ابن عابدین،بدائع الصنائع للکاسانی،الأم للشافعی، مغنی المحتاج للشربینی،اِعلام الموقعین،وزاد المعاد لابن القیم،أحکام القرآن للشافعی،وللجصاص،ولابن العربی، مجموع فتاوی ابن تیمےۃ،طریق الرشد للشیخ عبد اللطیف،نصب الرأےۃ للزیلعی، تلخیص الحبیر للحافظ ابن حجر العسقلانی، اور ارواء الغلیل للشیخ الألبانیکا مطالعہ کریں اور امام مالک ؒ کے ترجمہ کے لئے المدارک للقاضی عیاض، الدیباج لابن فرحون،شجرۃ النور الزکےۃ لمحمد بن محمد مخلوف وغیرہ کتب سے استفادہ کریں۔
کتب أصول فقہ وتاریخ التشریع کی تد ریس کا منہج
اصول فقہ میں فی الحال تسھیل الاصول للشیخ عطیہ محمد سالم وزملاء ہ اور اصول الفقہ للخلاف اور تاریخ فقہ میں تاریخ التشریع الاسلامی للشیخ محمد خضری بک مقرر ہے۔ان کی تدریس میں درج ذیل منہج اختیار کیا جائے۔
تسہیل الوصول کی تدریس کا منھج
(۱) بطور تمہیدفن اصول فقہ کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالی جائے۔
(۲) کتاب کا مختصر تعارف کرایا جائے۔
(۳)اس کے مصنفین کا مختصر تعار ف کرایا جائے۔
(۴)کتاب کو پڑھاتے وقت پہلے صحیح عبارت خوانی ہو، پھر مسائل کی زبانی تشریح وتفہیم اور پھر عبارت کی اچھی طرح توضیح کی جائے۔
(۵)کتاب میں وارد آیات کی تخریج کی جا ئے ،اور پوری آیت کو ذکر کر کے اس کی روشنی میں مسئلہ کو واضح کیا جائے۔
(۶)کتاب میں ذکر کردہ احادیث کی مختصر تخریج ہو اور حسب ضرورت ان کی عبارتوں کو ذکر کر کے مسئلہ کو واضح کیا جائے ۔
(۷) اگر کہیں مثالوں کی کمی محسوس ہو تو اور مثا لوں کا اضافہ کیا جا ئے اور اگرکہیں مثال نہ ہو تو وہاں مثالیں ضرور ذکر کی جائیں۔
مراجع ومصادر:الرسالۃ للامام الشافعی، الاحکام فی اصول الاحکام لابن حزم،المستصفی للغزالی، المنخول من تعلیقات الاصول للغزالی، الاحکام فی أصول الأحکام للآمدی،روضۃ الناظر لا بن قدامۃ ، المسودۃ فی اصول الفقہ لمجدالدین عبد السلام بن تیمےۃ وابنہ عبد الحلیم وشیخ الاسلام احمد بن عبدالحلیم،اصول الفقہ لشیخ الاسلام احمدبن تیمےۃ،اعلام الموقعین لابن القیم ، مسلم الثبوت لمحب اللہ بن عبد الشکور البھا ری ،ارشاد الفحول لمحمد بن علی الشوکانی،مذکرۃ اصول الفقہ للعلامۃ الشنقیطیوغیرہ کتب سے استفادہ کر یں ۔
اصول الفقہ للخلاف کی تدریس کا منہج
(۱)اصول فقہ کی افادیت و ضرورت اور اس کی تاریخ پر روشنی ڈالی جائے۔
(۲)کتاب اور مصنف کا تعارف کرایا جائے۔
(۳)اصول فقہ کی چند مشہور کتابوں اور ان کے مصنفین کا اجمالی تعارف کرایا جائے۔
(۴)مقدمہ کی تدریس لازمی طور پر ہو۔
(۵)صحیح عبارت خوانی ہو اور طبا عت کی غلطیوں کی اصلاح کی جائے۔
(۶)مسائل کی اچھی طرح تفہیم اور عبارت کی خوب تشریح وتوضیح ہو۔
(۷)کو شش یہ کی جائے کہ نصاب مکمل ہو جائے۔
مراجع ومصادر: سابقہ کتاب کے مراجع میں ذکر کردہ کتب کے علاوہ کتاب: المنھاج للبیضاوی مع شرح الأ سنوی،المنار للنسفی ،التحریر للکمال ابن الھمام اور جمع الجوامع للسبکی وغیرہ سے استفادہ کیا جائے۔
تاریخ التشریع الإسلامی کی تدریس کا منہج
(۱)بطور تمہید قانون وتشریع کی اہمیت وضرورت پر روشنی ڈالی جائے اوراسلامی قوانین اوروضعی قوانین( انسانوں کے وضع کردہ قوانین) میں اجمالی مقارنہ کرکے اسلامی قوانین کی افضلیت اور بر تری کو ثابت کیا جائے ۔
(۲)کتاب اور مصنف کا تعارف کرایا جائے۔
(۳) پہلے صحیح عبارت خوانی ہو پھر مدرس اسکے مضمون کو زبانی اپنے انداز میں بیان کرے ، پھر عبارت کی تشریح وتوضیح کرے۔
(۴)مسئلہ نسخ اور منہج اہل الحدیث وغیرہ کے بیان میں جہاں مصنف سے سہو ہوا ہے وہاں اس کی توضیح وتصحیح کی جا ئے۔
(۵)مقدمہ کے ساتھ مباحث مقرر ہ کی تدریس ہواور حسب ضرورت اختصار یا تفصیل سے کام لیا جائے مگر نصاب ختم کیا جائے۔
مراجع ومصادر: مقدمہ ابن خلدون ،اعلام الموقعین لابن القیم، مفتاح السعادۃ لطاش کبری زادہ ،أ بجد العلوم للنواب صدیق حسن خان ،حجۃ اللہ البالغۃ ، الإنصاف و عقد الجید للشاہ ولی اللہ الدھلوی ،تاریخ التشریع الاسلامی للاساتذہ عبد اللطیف السبکی ومحمد علی السایس ،ومحمد یوسف البربری، ومحاضرات فی تاریخ الفقہ الاسلامی للدکتور محمد یوسف موسی،اور اس فن کی دیگر جدید و قدیم کتب سے استفادہ کریں۔
کتب عقیدہ کی تدریس کا منہج
جامعہ محمدیہ کے نصاب میں عقیدہ کی بنیادی کتابیں درج ذیل ہیں:
۱- تقویۃ الایمان.
۲-کتاب التوحید.
۳-مذکرۃ فی العقیدۃ.
۴-شرح العقیدۃ الواسطیۃ.
۵-مہذب شرح العقیدۃ الطحاویۃ.
تقویۃ الایمان کی تدریس کا منہج
تقویۃ الایمان شاہ اسماعیل شہید ؒ کی وہ بابرکت کتاب ہے جس کے ذریعہ اللہ نے لاکھوں انسانوں کو شرک وبدعت سے توبہ کر کے توحید واتباع کتاب و سنت کی توفیق عطافرمائی ۔ اس کتاب کی تدریس کے وقت درج ذیل طریقہ اختیار کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔
(۱) بچوں کی عمر اور ان کی علمی و ذہنی صلاحیت کا لحاظ رکھتے ہوئے کتاب اور مؤلف کتاب کا مختصر تعارف کرائیں۔
(۲) صحیح صحیح عبارت خوانی کرائیں ۔
(۳) اس میں مذکور عقائد و مسائل کی اس طرح تشریح کریں کہ وہ بچوں کے دلوں میں اتر جائیں۔
(۴) کتاب میں وارد آیات و احادیث کی مختصر تخریج کے ساتھ آسان عبارت میں ان کی اس طرح تفسیر و توضیح کریں کہ مسائل کا ان سے ربط اور ان کی حجیت اجاگر ہوجائے ۔
(۵) کتاب میں ذیلی عنوان کی جہاں کمی محسوس کریں وہاں عناوین قائم کریں اور ایک ایک مسئلہ کو الگ الگ کر کے سمجھائیں ۔
(۶) جہاں ضرورت ہو کچھ دلائل یا مثالیں باہر سے لاکر سمجھائیں ۔
(۷) اس میں مشقی سوالات نہیں ہیں کیونکہ اصلا یہ کتاب نصاب کے لئے نہیں لکھی گئی ہے اس واسطے اساتذہ خود سے سوالات بنائیں اور ان کے جوابات طلبہ کو گھر سے لکھ کر لانے کے لئے کہیں۔ اور پھر جانچ کر کے اس کی اصلاح کریں ۔
(۸) طلبہ کو اہم اہم نصوص مع ترجمہ حفظ کرائیں ۔
(۹) ہفتہ پندرہ روز میں آموختہ سنیں، اور سوالات کے جوابات پوچھیں ۔
کتاب التوحید کی تدریس کا منہج
(۱)عقیدۂ توحید کی اہمیت و فضیلت پر روشنی ڈالی جائے۔
(۲) کتاب اور مؤلف کا تعارف کرایا جائے ۔
(۳) صحیح عبارت خوانی ہو ۔
(۴) آیات واحادیث اور مسائل کی اچھی طرح تشریح و تفہیم ہو ۔
(۵) مسائل طلبہ کو زبانی یاد کرائے جائیں اور اگر نصوص بھی یاد کرائیں تو بہت اچھی بات ہوگی۔
(۶) مشقی سوالات دئے جائیں اور ان کے جوابات طلبہ سے لکھوائے جائیں پھر جانچ کر کے غلطیوں کی اصلاح کی جائے ۔
مراجع و مصادر : فتح المجید ، تیسیر العزیز الحمید اور قرۃعیون الموحدین وغیرہ شرحوں اور توحید کی معتبر کتابوں سے استفادہ کیا جائے ، مولانا محمد بن یوسف السورتی  رحمہ الله کے ترجمہ سے بھی بوقت ضرورت استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
مذکرۃ فی العقیدہ کی تدریس کا منہج
(۱) عقیدہ کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالی جائے ۔
(۲) کتاب اور مؤلف کا مختصر تعارف کرایا جائے۔
(۳) کتاب کی عبارت خوانی کرائی جائے اور غلطیوں کی اصلاح کی جائے ۔
(۴) عبارت کی تشریح اور مسائل کی تفہیم آسان اسلوب میں کی جائے ۔
(۵) طلبہ کو مشقی سوالات لکھائے جائیں اور انھیں جوابات لکھنے كے لئے مکلف کیا جائے ، پھر استاذ جانچ کر کے غلطیوں کی اصلاح کرے۔
(۶) کبھی کبھی آموختہ سنا جائے اور سوالات کے جوابات طلب کئے جائیں ۔
شرح العقیدۃ الواسطیۃ کی تدریس کا منہج
(۱)عقیدہ کی اہمیت و فضیلت اور ارکان اسلام میں اسکی بنیادی حیثیت پر روشنی ڈالی جا ئے ۔
(۲) مولف متن اور شارح کی حیات و خدمات کا مختصر تعارف کرایا جائے ۔
(۳)طلبہ سے عبارت خوانی کرائی جائے۔
(۴) عبارت اور آیات و احادیث کی مناسب تشریح کی جائے ۔
(۵) شرح میں مذکور مسائل کو زبانی اپنے الفاظ میں بیان کیا جائے۔
(۶) عقائد سلف کی ترجیح دلائل کی روشنی میں ہو۔
(۷) کتاب میں مذکور فرق ضالہ کا تعارف اور ان کے مذاہب کی تردید کتاب و سنت کی روشی میں کی جائے ۔
(۸) سوالات دے کر طلبہ سے ان کے جوابات لکھائے جائیں ۔
مصادر و مراجع :تدمریہ، مجموع فتاوی ابن تیمیہ میں مذکور عقائد کے متعلق رسالوں اوردیگر کتب توحید سے استفادہ کیا جائے۔
مہذب شرح العقیدۃ الطحاویۃ کی تدریس کا منہج
(۱)صاحب مہذب کے علاوہ العقیدہ الطحاویۃ کے مولف اورشارح کا بھی تعارف کرایا جائے ۔
(۲) کتاب اور موضوع کتاب کی اہمیت اور عقیدہ کے باب میں پائی جانے والی جدیدو قدیم گمراہیوں پر روشنی ڈالی جائے ۔
(۳) طلبہ سے عبارت خوانی کرائیں اور غلطیوں کی اصلاح کریں۔
(۴) حسب ضرورت ترجمہ وتشریح کی جائے۔
(۵) مشکل مقامات کی تفہیم و توضیح کے لئے خارجی مثالوں اور بوقت ضروت بلیک بورڈ کی بھی مدد لی جائے۔
(۶) مختلف فیہ مسائل میں اگر شارح کاموقف کمزور ہو ( جو بہت کم ہے ) تو دلائل کی روشنی میں راجح مسلک کی وضاحت کی جائے۔
(۷) بعض مباحث کے ضمن میں طلبہ کو سوالات دے کر تحقیق اور صحیح جواب کی تلاش کا مکلف بنایا جائے۔
(۸) گاہے بگاہے مباحث کتاب کی روشنی میں روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے مسائل اور عصر حاضر کے مشہور عقائدو نظریات کے بارے میں طلبہ سے سوالات کئے جائیں اور مناقشہ و مباحثہ کے ذریعہ صحیح موقف کی وضاحت کریں ۔
مصادر ومراجع:مکمل شرح العقیدۃ الطحاویۃ بتحقیق علامہ ناصر الدین البانیؒ ،وبتحقیق الدکتور عبد اللہ الترکی ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله اور علامہ ابن القیم رحمہ الله کی وہ کتابیں جن سے شارح طحاویۃ علامہ ابن ابی العز رحمہ الله نے استفادہ کیا ہے۔اور جن کا تذکرہ شرح العقیدہ الطحاویۃ بتحقیق الالبانی صفحہ ۵۸-۶۲ میں ہے ، اور توحید کی دوسری معتمد کتابوں کا مطالعہ کریں۔
کتب ادب وقواعدکی تدریس کا منہج
منھاج العربيۃ کی تدریس کا منہج
(۱) طلبہ سے الفاظ کی صحیح ادائیگی کرائیں۔
(۲)الفاظ کے معانی ،واحد ،جمع ،تثنیہ، ابواب اور صیغے بتائیں ۔
(۳)ابتدائی نحو ی تراکیب مثلاً موصوف صفت کی ترکیب ،مبتدا وخبر ، مضاف مضاف الیہ ، جملہ فعلیہ وجملہ اسمیہ وغیر ہ کتاب کی روشنی میں بتائیں۔
(۴)پہلے ان اصطلاحات کو اچھی طرح سمجھادیں ،پھر اسباق میں وارد تراکیب کی نشاندہی کریں۔
(۵)عربی سے اردو اور اردو سے عربی بنا نے اور تمرینات کے حل پر خاص توجہ دیں۔
(۶) الفاظ و معانی وغیرہ کوخوب یاد کرائیں اور سنیں ، اور اس میں ذرا بھی رعایت نہ کر یں ۔
(۷) کتاب کے مقدمہ میں مصنف کے بیان کردہ ہدایات کو بھی مد نظر رکھیں۔
قصص النبیین کی تدریس کا منہج
(۱) کتاب اور مصنف کا تعارف کرائیں۔
(۲) قرآنی قصوں کی صداقت اور ان کی افادیت پر روشنی ڈالیں۔
(۳)طلبہ سے صحیح عبارت پڑھانے پر توجہ دیں ۔
(۴) مفردات کے معانی ، واحد، جمع ،باب اور صیغے بتائیں، اور صرف ونحو کے جن قواعد کا استعمال اس میں بکثرت ہے انھیں آسان الفاظ و اسلوب میں بتائیں اور کتاب کی عبارتوں میں ان کی تطبیق کرائیں،مگر طلبہ کوپیچید گیوں میں نہ ڈالیں بلکہ ان کے معیار کے مطابق مشق کرائیں۔
(۵)آگے چل کر مرفوعات ،منصوبات ،مجرورات اور ثلاثی مجرد ومزید فیہ کے ابواب کی بھی نشان دہی کریں۔
(۶)طلبہ کے ذہنوں کوانبیاء علیہم السلام کے قصوں اور ان کی سیرتوں سے عبرت ونصیحت حاصل کرنے کی طرف مبذول کریں۔ تاکہ طلبہ کے اخلاق وکردار پر انکا اچھا اثر پڑے۔
(۷) ہر سبق کے اہم اہم مضامین سوالات کی شکل میں پوچھیں۔
نوٹ:۱- درسی کتابوں میں تمرینات اور سوالات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، افسوس کہ اسے مصنف نے نصابی کتاب کی حیثیت سے لکھنے کے باوجود اس پر توجہ نہیں دی ہے، دار العلوم ندوۃ العلماء کے ذمہ داران اس کمی کو پوری کردیں تو بہتر ہو گا ،اور جب تک یہ کام ندوۃ العلماء سے نہیں ہوتا اساتذہ کرام تدریس کے وقت اپنی جانب سے اس کمی کو پوری کریں۔
۲- اگر ذمہ داران مدارس اس کتاب کے بجائے دکتور ف۔ عبد الرحیم کی کتاب’’ دروس اللغۃ العربیۃ لغیر الناطقین بہا‘‘نصاب میں داخل کرلیں تو میرے خیال میں زیادہ مناسب ہو گا ۔
مراجع ومصادر: لغت ، تفسیر اور نحو صرف وغیرہ کی کتابوں سے استفادہ کریں۔
القرأۃ الراشدۃ کی تدریس کا منہج
(۱)طلبہ سے صحیح صحیح عبارت خوانی کرائی جائے ۔
(۲)الفاظ کے معانی ،واحد، جمع ،ابواب، صیغے اور مشتقات بتائے جائیں۔
(۳) عبارت کا سلیس ترجمہ کیا جائے۔
(۴) صرف ونحو کے قواعد کی تطبیق کرائی جائے ۔
(۵) اچھے اچھے جملے اور تعبیرات یاد کرائی جائیں۔
(۶) اسباق میں عبرت وموعظت کی چیزوں کی جانب طلبہ کی توجہ مبذول کرائی جائے۔
(۷) اس میں بھی سوالات اور تمرینات پر توجہ دی جائے۔
کلیلۃ ودمنۃ کی تدریس کا منہج
(۱) عربی زبان و ادب کی اہمیت اور اس کے سیکھنے اور جاننے کی ضرورت پر روشنی ڈالیں۔
(۲) مصنف ، مترجم اور کتاب کاتعارف کرائیں ۔
(۳) صحیح عبارت خوانی کی طرف توجہ دیں۔اور نحو وصرف کے قواعد کی تطبیق کرائیں۔
(۴)مفردات کی تشریح کریں،اورواحد،تثنیہ،جمع ،ابواب،صیغے اورمشتقات وغیرہ بتائیں ۔
(۵) عبارتوں کا سلیس اور با محاورہ ترجمہ کرائیں۔
(۶)عربی تعبیرات ومحاورات کا ترجمہ اردو محاوروں میں کرائیں۔اورعربی محاورات و تعبیرات کو زبانی یاد کرائیں۔
(۷)واقعات میں جو درس اور عبرت کی باتیں ہوں طلبہ کی توجہ انکی جانب مبذول کرا ئیں ۔
مختارات کی تدریس کا منہج
(۱) عربی زبان کے فضائل و خصوصیات اور ہندو ستان میں اس کی خدمات پر روشنی ڈالیں ۔
(۲) مصنف اور کتاب کا تعارف کرائیں ۔
(۳) مقدمہ ضرور پڑھائیں۔
(۴) صحیح طریقہ سے اور عربی لہجہ و انداز میں عبارت خوانی کرائیں،اور اس کا خیا ل رکھیں کہ باری باری تمام طلبہ عبارت پڑھیں ۔
(۵)مفردات کی تشریح کریں۔اور واحد، جمع،ابواب، صیغے اور مشتقات وغیرہ بتائیں۔
(۶)نحوی وصرفی تراکیب کی طرف توجہ دیں۔
(۷) مقالہ نگار علماء کی حیات پر مختصر روشنی ڈالیں۔
(۸) عبارتوں کا سلیس اور با محاور ہ ترجمہ کرائیں۔
(۹)اچھے جملوں ومحاوروں کی نشاندہی کرکے یاد کرائیں اور ان کا با محاورہ اردو میں ترجمہ کریں ۔
(۱۰) مقالوں پر طلبہ سے عربی میں مختصر نوٹ لکھوائیں۔
(۱۱) کچھ اہم پیرا گراف کا عربی میں خلاصہ کرائیں۔
(۱۲) مرکزی مضمون اورواقعات سے حاصل ہو نے والی عبرت و موعظت کی باتیں بھی بیان کریں۔
(۱۳) کتاب میں تمارین اور سوالات کی جو کمی ہے اس کو پورا کریں۔
(۱۴)عربی لغات سے استفادہ کا طریقہ بتائیں اور عملی طور سے مشق کرائیں ۔
ازھار العرب کی تدریس کا منہج
(۱) تعبیر و بیان کے دونوں طریقوں نظم و نثر کو ذکر کرتے ہوئے نظم کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالیں۔
(۲) کتاب و مصنف کتاب کا تعارف کرائیں۔
(۳)اشعار کو اشعار کی طرح اور عربی اسلوب اور لہجہ میں پڑھنا سکھائیں۔
(۴) شعراء کے متعلق مختصر روشنی ڈالیں۔
(۵)الفاظ کی تشریح کریں، اورواحد، جمع، اصل مادہ ، ابوا ب اور صیغے وغیرہ بتائیں ۔
(۶) شعر کو نثر کی شکل میں بنا کر اسکا پہلے لفظی اور پھر سلیس و بامحاورہ ترجمہ کریں ۔اور مطلب بتائیں۔
(۷) کسی شعر کا کوئی پس منظر ہو تو اسے بھی بیان کریں۔
(۸) اشعار میں عبرت و موعظت کی جوباتیں ہیں ان کی جانب توجہ مبذول کرائیں۔
(۹)پچاس اشعار زبانی حفظ کرائیں۔
مراجع ومصادر: عربی لغات،تاریخ الادب العربی کی کتابوں،شعراء کے دواد ین اور شروح ازھار العرب سے استفادہ کریں۔
مجموعۃ النظم والنثر اور دیوان حماسۃ کی تدریس کا منہج
(۱) دیوان اور نظم کے لغوی و ا صطلاحی معنی بتائیں اور دونوں کتابوں کے مولفین کا تعارف کراتے ہوئے اشعار کی اہمیت اور حکم پر روشنی ڈالیں۔
(۲) اشعار کو عربی لب و لہجہ اور اشعار کے انداز میں پڑھائیں ۔
(۳) شعراء کا مختصر تعارف کرائیں۔
(۴)مفردات کی تشریح کریں۔
(۵)نحوی و صرفی تراکیب کی طرف خصوصی توجہ دیں۔
(۶)اشعار کا ترجمہ کریں اور ان کا پس منظر بیان کرکے تشریح کریں۔
(۷)اشعار میں عبرت ونصیحت کے پہلوکو واضح کریں۔
(۸) دونوں کتابوں میں سے کم از کم پچاس پچاس اشعار زبانی یاد کرائیں۔
معلم الإنشاء کی تدریس کا منہج
(۱) انشاء ، مضمون نگاری اور ترجمہ کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالیں۔
(۲) کتاب اور اس کے مصنف کا تعارف کرائیں۔
(۳) تمرین کے تحت آنے والے قواعد کو پہلے اچھی طرح سمجھائیں ۔
(۴)پھر اس تمرین میں جو الفاظ آئیں ان کے معانی، واحد ،جمع اور مشتقات بورڈ پر لکھ کرسمجھائیں ۔
(۵) ہر طالب علم سے مفردات اور جملوں کا ترجمہ کرائیں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ ہر طالب علم جملوں کو پڑھے اور حل کرے اور اگر اردو سے عربی بنانا ہو تو بھی ایسا ہی کریں۔
(۶) ہر تمرین کو طلبہ کا پی پر لکھ کر لائیں ۔پھر استاد ان کو چیک کرے، چیک کرنے کے بعد استاد کا کاپی پردستخط کرنا ضروری ہے۔
(۷) ترجمہ با محاورہ کرائیں ۔نیز املاء کی غلطیوں کی نشاندہی بھی کریں۔
امین النحو کی تدریس کا منہج
(۱) علم نحو کے فوائد و اہمیت پر روشنی ڈالی جائے۔
(۲) مولف اور کتاب کا تعارف کرایا جایئے۔
(۳)قواعد کووضاحت کے ساتھ آسان اسلوب میں سمجھایا جائے، اور طلبہ کے سامنے زیادہ سے زیادہ مثالیں پیش کی جائیں ۔
(۴)تمرین النحو ،ہداےۃ النحو ،اور نحو کی دوسری کتابیں بھی مطالعہ میں رکھیں۔اور ان کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ مثالیں دیں اور یاد کرائیں ۔
(۵)اس جماعت میں اگر ادب کی کوئی کتاب پڑھاتے ہوں تو اس میں نحو کے قواعد کی تطبیق کرائیں۔
نوٹ:قواعد کے یاد کرانے اور سننے پر پوری توجہ دی جائے۔
کتاب النحو کی تدریس کا منہج
(۱)علم نحو کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کریں تاکہ اس فن کو طلبہ انشراح صدر کے ساتھ پڑھیں ۔
(۲)مولف اور کتاب کا تعارف کرائیں ۔
(۳) قواعد کی اچھی طرح مثالوں کے ساتھ تشریح کریں اور طلبہ کو خوب یاد کرائیں اور سنیں، جہاں مثالیں نہ ہو وہاں دوسری کتابوں سے مثالیں لاکر طلبہ کو سمجھائیں ۔
(۴) اگر اس جماعت میں عربی ادب کی کوئی کتاب پڑھاتے ہوں تو اس کی عبارت خوانی کے وقت ان قواعد کی تطبیق کراتے رہیں ۔
مصادر و مراجع :ہدایۃ النحو، قطر الندیٰ اور شرح ابن عقیل وغیرہ اس فن کی کتابیں زیر مطالعہ رکھیں۔ تاکہ معلومات میں اضافہ ہو اور قواعد کے سمجھنے اور سمجھانے میں سہولت ہو۔
ہداىۃ النحو کی تدریس کا منہج
(۱) طلبہ کے سامنے علم نحو کی اہمیت و ضرو رت کے بیان کا اعادہ کریں۔
(۲) مصنف اور کتاب کا تعارف کرائیں۔
(۳) صحیح عبارت خوانی کرائیں اور مسائل کو اچھی طرح آسان اسلوب میں سمجھائیں۔ اور جہاں ضرورت ہو باہر سے مثالیں پیش کرکے توضیح کریں۔
(۴)ہر مسئلہ کو طلبہ سے یاد کرائیں اور سنیں۔
(۵) نحو کے ضروری مسائل ( خواہ کسی بھی قاعدہ سے متعلق ہوں)جو اس کتاب میں نہیں ہیں دوسری کتابوں کا مطالعہ کر کے طلبہ کو بتائیں۔
(۶) اگر ادب کی کوئی کتاب پڑھاتے ہوں تو اس میں اس کے قواعد کی تطبیق کرائیں۔
تمرین الصرف کی تدریس کا منہج
(۱) علم صرف کی ضرورت و افادیت پر روشنی ڈالیں۔
(۲) کتاب میں مذکور مسائل کی اچھی طرح مثالوں کے ساتھ توضیح کریں۔
(۳) تمرینات کو اچھی طرح حل کرائیں۔
(۴) قواعد کو یاد کرانے اور سننے پر خصوصی توجہ دیں۔
امین الصیغہ کی تدریس کا منہج
(۱)یہاں بھی علم صرف کی ضرورت و افادیت پر روشنی ڈالیں۔
(۲) کتاب اور اس کے مصنف کا تعارف کرائیں۔
(۳) مسائل کو اچھی طرح سمجھائیں۔
(۴) ہر مسئلہ کو یاد کرائیں اور سارے طلبہ سے فرداً فرداً سنیں۔
(۵)کتاب کے علاوہ باہر سے بھی مثالیں لا کرمسائل کی خوب توضیح کریں۔
(۶) جب تک ہر طالب علم سبق نہ سنادے اگلا سبق نہ پڑھائیں۔
علم التصریف کی تدریس کا منہج
(۱)زیر درس مسائل کو تفصیل سے سمجھایا جائے ۔
(۲) اس بات پر زور دیا جائے کہ ہرطالب علم ہرمسئلہ کو سمجھ لے اور اپنی زبان سے ادا کرسکے ۔
(۳)ابواب کے خصائص پر خصوصیت کے ساتھ توجہ دی جائے۔
(۴)سبق سنے بغیر اگلا سبق نہ پڑھا یا جائے۔
دروس البلاغۃ کی تدریس کا منہج
(۱) علم بلاغت کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالیں۔
(۲) کتاب اور مصنف کا تعارف کرائیں۔
(۳) صحیح عبارت خوانی کرائیں۔
(۴) عبارتوں کا با محاورہ ترجمہ اورتشریح کریں۔
(۵)اصطلاحات کی اچھی طرح مثالوں کے ساتھ وضاحت کریں ۔ اور اشعار میں محل استشہا د بتائیں۔
(۶)اصطلاحات کو یاد کرانے اور سننے پر توجہ دیں۔
مرقات کی تدریس کا منہج
(۱) منطق کی تعریف اور اس کے فوائد اور ضرورت پر روشنی ڈالیں۔
(۲) کتاب اور مصنف کے بارے میں بتائیں۔
(۳)اصطلاحات کو اچھی طرح سمجھا ئیں اور یاد کرائیں۔
قرآن کریم کے حفظ کرانے کا منہج
(۱)طلبہ کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت و حفظ کے فضائل وفوائد بیان کریں، تاکہ ان کے دل میں حفظ قرآن کا شوق پیدا ہو۔
(۲)طلبہ کو تاکید کی جائے کہ وہ ایک ہی مصحف استعمال کریں کیونکہ حافظ کے ذہن میں صفحہ کا پورا نقشہ محفوظ ہوجاتا ہے ، اور مختلف قسم کے مصحف استعمال کرنے سے حفظ میں پریشانی ہوتی ہے ۔
(۳)انھیں حتی الامکان گناہ و معصیت کے کاموں سے اجتناب کرائیں ،اس سے اللہ تعالیٰ کی مدد ان کے شامل حال ہوجاتی ہے ، اور حفظ کرنا آسان ہوجاتا ہے ۔
(۴) طلبہ کو بے دردی سے مارنے کے بجائے ترغیب دے کر اور مسابقہ کے جذبات ابھار کر حفظ پرمائل کریں ، اس کے لئے مستقل نگرانی و رہنمائی اور بار بار توجہ دلانا بھی ضروری ہے ۔
(۵) طلبہ اور ان کے والدین کو شرع ہی سے اس بات کا احساس دلائیں کہ قرآن کو حفظ کرنے کے بعد اسے یاد رکھنا واجب ہوجاتا ہے اس واسطے اس کے لئے مسلسل محنت کرنا اور وقت نکالنا ضروری ہے اور تعطیلات میں والدین کو خود نگرانی کرنا اورقرآن سننا چاہئے ۔
 (۶)حفظ کے لئے بہترین وقت نماز فجر کے فوراً بعد ہے، اس واسطے حفظ کرنے والوں کے لئے نماز فجر سے پہلے اٹھنا اور نماز فجر باجماعت پڑھنا اور پھر قرآن یاد کر نا ضروری ہے ، نیز انھیں شام کو عشا ء کے بعد دس بجے تک لازما سوجانا چاہئے ۔
(۷)سب سے پہلے جو حصہ طالب علم کو حفظ کرانا ہے اس کا ناظرہ درست کرا یا جائے جس میں تجوید کے ضروری قواعد کے اجراء کا اہتمام کیا جائے ۔
(۸)ابتدا میں مختصر سبق دیا جائے پھر آہستہ آہستہ طالب علم کی استعداد کا لحاظ رکھتے ہو ئے اس میں اضافہ کیا جائے ، مگراتنا سبق نہ دیاجائے جس کا یاد کرنا طالب علم کی استعداد وطاقت سے باہر ہو۔
(۹)سبق پابندی کے ساتھ بلا نا غہ سنا جائے اور پھرنیا سبق دیا جائے ،اورنیا سبق دیتے ہوئے اس کا خیال رکھا جائے کہ طالب علم کا موجودہ سبق بالکل پختہ یاد ہوا ہے کہ نہیں، اگر پختہ یاد نہیں ہے تو آگے کا سبق نہ دیا جائے اسی طرح حرکات کی بکثرت غلطیاں ہونے یارواں نہ پڑھنے پر بھی آگے کا سبق نہ دیا جائے۔
(۱۰)سبق کے علاوہ موجودہ سبق سے پہلے سات دن قبل تک کا پڑھا ہوا آموختہ بھی سنا جائے جس کو عرف عام میں ’’سبق پارہ‘‘کہا جاتا ہے۔
(۱۱)جب بھی کوئی پارہ ختم ہو تو اس کو اچھی طرح سے یاد کرائیں، یہاں تک کہ بغیر غلطی کے وہ پارہ مکمل یاد ہو جائے ،اس کے بعد ہی دوسرا پارہ شروع کریں، ایک یا دو غلطیوں کوبرداشت کیا جاسکتا ہے ۔
(۱۲)روزانہ کم از کم نصف پارے کا آموختہ ضرور سنا جائے۔
(۱۳)دَور کرنے والے طلبہ سے، پہلے دورمیں کم از کم یو میہ نصف پارہ سنا جائے، پھر دوسرے دور میں کچھ اضافہ کیا جائے ،اسی طرح ہر مرتبہ اضافہ کرتے رہیں یہاں تک کہ آخری دور میں کم از کم تین پارہ یو میہ سنا جائے ،اس طرح دور کے طلبہ وطالبات پر دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ وقت صرف کیا جائے ۔
(۱۴) متوسط مدت حفظ تین سے چار سال تک ہے ،اس سے کم مدت میں ہو جا ئے تو بہتر ہے ۔ پہلے سال کم از کم ۸ ؍پارہ، دوسرے سال ۱۰؍ پارہ اور تیسرے سال ۱۲؍ پارہ حفظ کرائیں، چوتھے سال میں دور اور اگر کچھ حفظ کرنا باقی رہ گیا ہو تو پہلے اس کا درس پھر دور ہوگا۔


[1] ) محققین علماء نے ترجمہ قرآن کے بجائے ترجمہ معانی القرآن کہنے کو زیادہ صحیح قرار دیا ہے، کیونکہ قرآن کریم کے الفاظ و آیات کا اسی فصاحت و بلاغت اور جامعیت کے ساتھ دوسری زبان میں ترجمہ کر نابہت مشکل بلکہ محال ہے۔ اس لئے کہ قرآن کے الفاظ وآیات میں جو فصاحت و بلاغت ، سلاست و جا معیت اور ادبی وعلمی چاشنی پائی جاتی ہے و ہ دوسر ی زبانوں کے مترجمین کے الفاظ و جملوں میں نہیں پائی جا سکتی ۔ صرف ان کے معانی کی حسب الامکان تفسیر اورترجمانی ہو تی ہے ، اس واسطے ترجمۃ القر آن کے بجائے ترجمۃ معانی القرآن کہنا زیادہ مناسب اور صحیح ہے۔
Blogger Widgets