=حکمت کے موتی= تکبر علم کو کھا جاتا ہے۔۔۔ اچھا سوال آدھا علم ہے۔۔۔ ۔۔۔ پست ارادے کامیابی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔۔۔ خامیوں کا احساس کامیابی کی کنجی ہے۔۔۔ جھوٹ بول کر جیت جانے سے سچ بول کر ہار جانا بہتر ہے۔۔۔ اللہ کے دشمنوں سے محبت کرنا اللہ تعالٰی سے دشمنی کرنا ہے۔۔۔ کمزور موقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں،باہمت انسان خود مواقع پیدا کرتے ہیں۔۔۔ برا دوست کوئلے کے مانند ہے،گرم ہوگا تو جلائے گا،ٹھنڈا ہوگا تو ہاتھ کالا کرے گا۔۔۔ . Anisur Rahman Makki

آداب تعلیم وتربیت حصہ اول

آداب تعليم
و
تربيت

تالیف

ڈاکٹر فضل الرحمن المدنی
جامعہ محمدیہ ، منصورہ مالیگاؤں

مقدمہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللّه کفیٰ وسلام علی عباده الذين اصطفیٰ اما بعد!
تعلیم وتربیت کا عمل بڑا ہی مہتم بالشان اور اخلاص ،محبت اور صلاحیت ولیاقت کا متقاضی ہے ، اسی واسطے اس کی ذمہ داری اللہ جل شانہ کی جانب سے انبیاء علیہم السلام پر ڈالی گئی اور ان کے بعد بڑ ے بڑے ائمہ کرام اور ماہرین فن علماء عظام جنہیں ورثۃالانبیاء ہونے کا شرف حاصل ہے اس کو انجا م دیتے رہے۔
کتاب وسنت اور آثار سلف میں اس موضوع پر اچھا خاصہ مواد مو جود ہے، اور علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ (۴۶۳ھ)امام نووی رحمہ اللہ (۶۷۶ھ)،ابن جماعہ رحمہ اللہ (۷۳۳ھ)اور نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ (۱۳۰۷ھ) وغیرہ بہت سے علماء کرام نے اس مو ضوع پر اپنے زمانے کے حالا ت و مقتضیات کے مطابق روشنی ڈالی ہے اور اساتذہ و طلبہ کے لئے تعلیم وتعلّم کے آداب بتلائے ہیں، مگر افسوس کہ ہندوستان میں عصری علوم کے اساتذہ کی ٹریننگ اور طریقۂ تدریس کی تعلیم کے لئے تو بہت سے کالج ہیں اور حسب ضرورت مختصر مدت کے لئے بھی اساتذہ کی ٹریننگ کا پروگرام ہو تا رہتا ہے، مگر عربی مدارس وجامعات میں اس فن کی تعلیم اور نئے اساتذہ کی ٹریننگ پر توجہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے، اسی واسطے جب جامعہ محمدیہ میں طریقۂ تدریس کا مضمون داخل نصاب کیا گیا تو بروقت اس کے لئے کوئی مناسب کتاب دستیاب نہ ہو سکی اور اساتذہ اپنے مطالعہ اور تجربہ کی روشنی میں کچھ مفید باتیں طلبہ کو بتاتے اور اس موضوع سے متعلق کچھ کتابوں کی جانب رہنمائی کردیتے۔
ایک مرتبہ اس موضوع پر سابق شیخ الجامعہ شیر خان جمیل احمد العمری کے زیر اشراف اساتذۂ کرام کی کئی میٹنگیں ہوئیں ، اور کچھ درسی کتابوں کے طریقۂ تدریس پر ان کتابوں کے پڑھانے والے اساتذہ نے تحریری اظہار خیال بھی کیا، مگر بات نا مکمل ہی رہی،دوسال قبل کلیہ عائشہ صدیقہ میں منہج بحث اورطریقۂ تدریس کی گھنٹی ناچیز کو ملی، اس موقع پر میں نے اس موضوع پر عربی اور اردو میں جو کتابیں دستیاب ہوسکیں ان کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اکثر کتابیں انگریزی میں اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں کا چربہ ہیں ،اور عربی مدارس کے اساتذہ اور دینی کتابوں کی تدریس کے تعلق سے ان کی افادیت بہت کم ہے، اس واسطے عربی مدارس اور عموماً ان میں پڑھائی جانے والی کتابوں کا لحاظ کرتے ہوئے چند اہم اہم باتیں میں نے طالبات کی تفہیم میں سہولت اور پہلے عربی میں پڑھانے اور پھر اردو میں اس کا ترجمہ کرنے کی ڈبل محنت سے بچنے کے لئے اردو میں محاضرہ (لیکچر) کی شکل میں ان کے سامنے پیش کیں اور ان کے متعلق مختصر نوٹ اور اشارے تیار کئے، پھر اس کے کچھ گوشوں پر مجلہ صوت الحق میں روشنی ڈالی، بعد میں کئی احباب کا مطالبہ ہوا کہ کچھ مزید تفصیل و توضیح کے بعد اسے کتابی شکل میں شائع کردیا جائے ،تاکہ اس سے استفادہ کا حلقہ اور وسیع ہوجائے ۔چنانچہ ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اسے کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے ، امید ہے کہ جہاں نئے اساتذہ اس سے استفادہ کریں گے وہیں تجربہ کار اور اس فن کے ماہرین اساتذہ کرام اپنے گراں قدر مشوروں سے نوازیں گے ۔
اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ اسے قبولیت سے نوازے ، ہمارے لئے ذخیرۂ آخرت بنا ئے ،جن اساتذۂکرام نے اپنے مفید مشوروں اور تجاویز سے نوازا ہے انھیں اجر جزیل عطا فرمائے ، اور جو گوشے ابھی تشنہ ہیں انھیں مکمل کرنے کا ہمیں موقع اور توفیق عطا فرمائے۔ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم ، وتب علینا انک انت التواب الرحیم.وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین.
دکتور فضل الرحمن المدنی
        جامعہ محمدیہ ، منصورہ ,  مالیگاؤں
                 ۲۰؍۹؍۲۰۰۲ء


بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
باب اول
تعلیم وتربیت کی اہمیت وفضیلت
جب تک کسی کام کی اہمیت و فضیلت اور افادیت و ضرورت کا علم نہ ہو آدمی اس کو اچھی طرح اوردلچسپی و محنت سے انجام نہیں دیتا ہے۔نیز آج بہت سے لوگ تعلیم وتربیت کے کام کو کچھ اہمیت نہیں دیتے۔اور جو حضرات اس کام سے متعلق ہیں انہیں بڑی حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، خاص طور سے علوم شریعت کے اسا تذہ ومعلّمات کو’’ملے اور ملانیوں‘‘ کے نام سے مخاطب کر کے بزعم خود ان کی تذلیل وتحقیر کرتے ہیں ۔اور بہت سے اساتذہ و معلّمات بھی ان لوگوں کی اس غلط روش کی بنا پر احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں، اس واسطے مناسب یہ معلوم ہو تاہے کہ تعلیم و تربیت کے آداب و طرق کو بیان کرنے سے پہلے ان کی اہمیت و فضیلت اور ضرورت پر روشنی ڈالی جائے ، تاکہ ان لوگوں کی غلط فہمیوں کا ازالہ ہواور اس پیشے سے متعلق اسا تذہ ومعلّمات اسے ایک انتہائی معزز اور قابل فخر عمل سمجھ کر پورے انشراح صدر اور اطمینان کے ساتھ انجام دیں ۔
تعلیم وتربیت انبیاء علیہم السلام کا عمل
تعلیم و تربیت کا کام بڑا ہی عظیم المرتبت اور اہمیت کا حامل عمل ہے، اس لئے کہ یہ انبیاء علیہم السلام کا عمل ہے ۔ اوران کی بعثت اسی عظیم الشان کام کی انجام دہی کی خاطر ہوئی تھی۔ارشاد الٰہی ہے: هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّيِّيْنَ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو علَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَکِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَإِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِيْنٍ  (الجمعة: ٢)
اللہ ہی کی ذات ہے جس نے امیوں میں ایک رسول انھیں میں سے مبعوث فرمایا،جو ان پر اس کی آیتوں کی تلاوت کرتا ہے،ان کا تزکےۂ نفس کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے ، اگرچہ وہ اس سے قبل کھلی ہوئی ضلالت وگمراہی میں تھے۔
یہ آیت کریمہ بڑے واضح طورسے اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت،لوگوں کے سامنے آیات قرآنیہ کی تلاوت ، کتاب وسنت کی تعلیم،اور لوگوں کی تربیت اور تزکيۂ نفس کے لئے ہوئی تھی۔
دوسری جگہ ارشاد باری ہے: لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَی الْمُؤمِنِيْنَ إِذْ بَعَثَ فِيْهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَکِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَإِن کَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلالٍ مُّبِيْنٍ آل (عمران: ١٦٤)
اللہ نے مومنوں پر احسان فرمایا۔ اس لئے کہ انھیں میں سے ایک رسول مبعوث کیا، جو ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے۔ان کا تزکیہ فرماتا ہے،اورانہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے ، اگر چہ اس سے قبل وہ کھلی ہوئی ضلالت میں تھے۔
یہاں کتاب سے مراد کتاب اللہ یعنی قرآن کریم ہے اورحکمت سے مراد سنت نبویہ اور دیگر دانائی و عقلمندی کی باتیں ہیں۔اور تزکیۂ نفس سے مراد ان کے عقائد،اعمال اور اخلاق کی اصلاح و تطہیر اور تمام ظاہری و باطنی برائیوں کا ازالہ ہے۔
اس آیت کریمہ سے ایک بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کو کتاب و سنت کی تعلیم دینا ، ان کے نفوس کا تزکیہ فرمانا،اور اللہ تعالیٰ کا اس کام کے لئے آپ کو مبعوث فرماناکوئی معمولی بات نہیں، بلکہ ایک عظیم نعمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنا احسان قرار دیا ہے۔
دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت لوگوں کی تعلیم اور تزکیۂ نفوس کے لئے ہوئی تھی ،اور خاص اسی مقصد كے لئے اللہ نے آپ کو اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا تھا، اور جب تعلیم وتربیت سید المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء علیہم السلام کا عمل ہوا، جس كے لئے اللہ جل شانہ نے انہیں مبعوث فرمایا تھا تو یقیناً یہ بڑا عظیم الشان،اور ا ہمیت کا حامل عمل ہے، اس کو حقیر سمجھنا کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔
تیسری بات اس آیت کریمہ پر غور کرنے سے یہ معلوم ہو تی ہے کہ تعلیم و تربیت کا کام کرنے والے علماء اور مخلص معلّمین و اساتذہ اور خاص طور سے علوم شرعیہ کے اساتذہ و معلّمین انبیاء علیہم السلام کے وارث اور نائب ہیں،جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ ‘‘علماء انبیاء کے وارث ہیں۔(رواه ابوداود والترمذي وابن حبان والحاکم مصححا من حديث ابي الدرداء ، و حسنه حمزة الکناني، واورده البخاري في الترجمة ، وهذا يشعربان له اصلا وله شواهد يتقوی بها. انظر فتح الباری :1/160)
اور جب انبیاء علیہم السلام اللہ کے نزدیک بڑے معزز اوربرگزیدہ لوگ تھے تو ان کے وارثین (اساتذہ ومعلّمات) بھی یقیناًبڑے معزز و محتر م لوگ ہوں گے اور ان کا عمل اور پیشہ بھی بڑا محترم مانا جائے گا۔
اس سے یہ حقیقت بھی واشگاف ہوتی ہے کہ اساتذہ و معلّمات اور خاص طور پر دینی علوم کے اساتذہ و معلّمات کو حقیر سمجھنا اور ان کے پیشے کو حقا رت کی نظر سے دیکھنا بڑی نادانی کی بات ہے ۔
تعلیم ایک قابل رشک عمل ہے
تعلیم ایک قابل رشک عمل اور تعلیم و تربیت کا کام کرنے والے مخلص اساتذہ قابل رشک اور لائق صد فخر لوگ ہیں، حضرت عبد اللہ بن مسعودرضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ لاَ حَسَدَ إِلاَّ فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالاً فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فَهْوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا.‘‘( صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 1/ 28 , صحيح مسلم : 2/ 201)
صرف دو آدمیوں پر رشک کرنا جائز ہے،ایک اس شخص پر جس کو اللہ نے مال ودولت سے نوازا، پھر اس کو حق اورنیک کاموں میں خرچ کرنے کی بھر پور توفیق دی ، دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے علم و حکمت سے نوازا،تو وہ اس سے لوگوں کے درمیان صحیح اور شریعت کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کواس کی تعلیم دیتا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کتاب و حکمت یعنی قرآن وسنت اور علوم شرعیہ کی تعلیم دینا اور لوگوں کے معاملات کو کتاب و سنت کی روشنی میں حل کرنا،اللہ کی بہت بڑی نعمت اور قابل رشک عمل ہے ،اور اس کو حقیر سمجھنا قطعاًدرست نہیں۔
تعلیم صدقۂ جاریہ ہے
حضرت ابو ہریرہ  رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلاَّ مِنْ ثَلاَثَةٍ إِلاَّ مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ ‘‘ (صحيح مسلم : 5/ 73)
جب انسان مرجاتاہے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے ،مگر تین چیزوں کا ثواب اسے بعد میں بھی ملتا رہتا ہے،ان تینوں چیزوں میں سے ایک تو صدقۂ جاریہ ہے،جیسے اس نے کوئی مسجد تعمیر کرادی،یاکوئی مدرسہ،یا مسافر خانہ یا یتیم خانہ بنوا دیا۔یا کسی جگہ پانی کی قلت دیکھی تو کنواں کھدوادیا ،تو اس صدقۂ جاریہ کا ثواب اسے انتقال کے بعد بھی ملتا رہے گا۔
دوسرا وہ علم جس سے انتفاع کا سلسلہ بعد میں بھی جاری رہے ، اور لوگ اس کے انتقال کے بعد بھی اس سے استفادہ کرتے رہیں ،جیسے اس نے کچھ طلبہ کو علوم شرعیہ کی تعلیم دی اور انہیں مفید علم سکھایا اور پھر ان طلبہ نے تعلیم وتدریس اور دعوت وتبلیغ یا تصنیف وتالیف کے ذریعہ اس سے افادہ کا سلسلہ جاری رکھا، یا کوئی کتاب لکھ دی جس سے لوگ اس کے بعد بھی مستفید ہوتے رہے۔ تو جب تک لوگ اس کتاب کو پڑھتے،اور اس سے استفادہ کرتے رہیں گے اسے اجر وثواب ملتا ر ہے گا ۔
تیسری موت کے بعد کام آنے والی چیز وہ نیک اولاد ہے جو اس كے لئے دعائیں کرتی ر ہے۔ظاہر ہے کہ اولاد بھی صحیح تعلیم وتر بیت کی وجہ سے ہی نیک بنتی اور اپنے والدین کے حقوق پہچا نتی اور ان كے لئے دعاء خیر کرتی ہے، اور اولاد کی تعلیم وتر بیت اگر صحیح نہ ہو تو ان کے بگڑنے کا قوی اند یشہ رہتاہے۔
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’ مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ ‘‘ (رواہ احمد ومسلم وابوداود والترمذی وصححہ، انظر صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ: ۵؍۲۹۰)
جس نے کسی اچھے کام کی جانب لوگوں کی رہنمائی کی تو اسے بھی اس نیک کام کے کرنے والے کے مثل اجرو ثواب ملے گا۔
طلبہ و طالبات کو کتاب وسنت اور علوم شرعیہ کی تعلیم دینا بلا ریب ان کی خیر کی جانب رہنمائی کرنا ہے۔اس واسطے یہ طلبہ و طالبات علوم شرعیہ کو سیکھنے کے بعد جو تعلیم و تربیت،دعوت وتبلیغ اور اصلاح معاشرہ کا کام کریں گے، اور جتنے بھی نیک اعمال اس تعلیم وتربیت کی وجہ سے وہ انجام دیں گے ان سب اچھے کاموں کا اجر وثواب ان کے اساتذہ اور مربیوں کو بھی ملے گا۔
حضرت ابو ہریرہ  رضى اللہ عنہ کی ایک دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا :’’ إِنَّ مِمَّا يَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِهِ وَحَسَنَاتِهِ بَعْدَ مَوْتِهِ عِلْمًا عَلَّمَهُ وَنَشَرَهُ، أَوْ وَلَدًا صَالِحًا تَرَكَهُ، أَوْ مَسْجِدًا بَنَاهُ، أَوْ بَيْتًا لِابْنِ السَّبِيلِ بَنَاهُ، أَوْ نَهَرًا كَرَاهُ، أَوْ صَدَقَةً أَخْرَجَهَا مِنْ مَالِهِ فِي صِحَّتِهِ وَحَيَاتِهِ تَلْحَقُهُ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِ ‘‘. (رواہ ابن ماجہ : ۱؍۸۸(۲۴۲) وقال الألبانی:اسنادہ حسن کما قال المنذری، وبہ رواہ ابن خزیمۃ فی صحیحہ.(مشکاۃ۱؍۸۵)
یعنی مومن کو اس کی نیکیوں اور اعمال صالحہ میں سے جو چیزیں مرنے کے بعد نفع دیتی ہیں ان میں سے علم ہے جس کی وہ تعلیم دے اور نشرواشاعت کرے،اور نیک اولادہے جس کو اس نے اپنے پیچھے چھوڑا، قرآن کریم ہے جسے اس نے کسی کو دیدیا، مسجدہے جس کی اس نے تعمیرکی،یا سرائے ہے جس کو اس نے مسافروں كے لئے بنایا، یا نہر ہے جو اس نے کھدوائی ،یا وہ صدقہ ہے جس کو اس نے اپنی زندگی میں اور بحالت صحت اللہ کی راہ میں دیا،یہ وہ چیزیں ہیں جن کا اجروثواب مومن کو اس کے مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مَنْ عَلَّمَ عِلْمًا , فَلَهُ أَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهِ ، لاَ يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الْعَامِلِ ‘‘ (رواہ ابن ماجہ وقال فؤادعبدالباقی:المتن ثابت معنی، وإن تکلم فی الزوائد علی إسنادہ:۱؍۸۸(۲۴۰)جس نے کسی کو کوئی علمی بات بتائی تو اس کو اس پر عمل کرنیوالے کے مثل ثواب ملے گا ،اور عمل کرنے والے کے اجر میں کچھ کمی نہیں ہو گی ۔
ان تمام احادیث سے معلوم ہو تا ہے کہ تعلیم بہترین صدقۂجاریہ ہے جس کا ثواب اساتذہ ومعلّمات کو ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ملتا رہے گا۔
مخلص معلم مجاہد ہے
حضرت ابو ہریرہ  رضى اللہ عنہ فرماتے ہیں: مَنْ جَاءَ مَسْجِدِي هَذَا ، لَمْ يَأْتِهِ إِلاَّ لِخَيْرٍ يَتَعَلَّمُهُ أَوْ يُعَلِّمُهُ ، فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللهِ ، وَمَنْ جَاءَ لِغَيْرِ ذَلِكَ ، فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الرَّجُلِ يَنْظُرُ إِلَى مَتَاعِ غَيْرِهِ ‘‘(رواہ ابن ماجہ:۱؍۸۲ (۲۲۷) وفی الزوائد:اسنادہ صحیح علی شرط مسلم)
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان فرماتے ہوئے سنا:جو شخص میری اس مسجد میں صرف خیر کی تعلیم دینے یا حاصل کرنے آیا اسے مجاہد فی سبیل للہ کا درجہ حاصل ہے اور جو اس کے علاوہ کسی اور دنیاوی کام کی غرض سے آیا تو وہ اس شخص کی طرح ہے جس کی نظر غیر کے مال پر لگی ہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اخلاص اور سچی نیت سے اچھی باتوں کی تعلیم دینا جہاد فی سبیل ا للہ اور مخلص معلم مجاہد فی سبیل ا للہ کے درجہ میں ہے۔
معلم قوم کا معمار اور ترقی کا باعث ہے
قوموں کی ترقی اور عروج میں تعلیم کا بڑا دخل ہے ،جو قوم جتنا زیادہ تعلیم یافتہ ہو گی وہ قوم ا تنا ہی زیادہ ترقی یا فتہ ہو گی، اور وہ برابر آ گے بڑھتی،ترقی کر تی اور جدید تحقیقات وایجادات کے با ب میں نمایاں کار کردگی کا مظاہرہ کرتی جائے گی ،اور اقوام عالم میں معزز بن کر رہے گی ،اور جو قوم جس قدر جاہل ،ان پڑھ اور علم سے نا بلد ہو گی وہ قوم اسی قدر تنزلی وانحطاط اور ذلت وخواری کا شکار ہو گی، اسی نقطے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فر مایا:   يَرْفَعِ اللّهُ الَّذِيْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَالَّذِيْنَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ  (المجادلة: ١١) اللہ تعالیٰ مومنوں اور اہل علم کے در جا ت کو بلندفرماتا ہے۔
اس اعتبار سے اساتذہ ومعلّمات علم کی اشاعت کرکے قوم کو ترقی دیتے اور اسے بام عر و ج تک پہنچاتے ہیں، اس واسطے ان کو کبھی یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہماری اور ہمارے کام کی کیا حیثیت ہے ۔ کیونکہ ان کا کام قوم و ملت کی تعمیر کاکام ہے،اور ان کا معاشرہ میں بڑاہی مقام ہے،ان کی وجہ سے فرزندان قوم کی ترقی ہو تی ہے،وہ اعلی مناصب حاصل کرتے ہیں اور انہیں کی محنت وجدو جہد کے نتیجہ میں پوری قوم دینی و دنیوی اعتبار سے کامیاب اور فائز المرام ہوگی۔
مثال کے طور پر حضرت عبد اللہ بن عباس رضى الله عنہما جوبہت مشہور صحابی ہیں انہیں ترجمان القرآن اور حبر الامۃکہا جاتا ہے ،ان کا شمار صغار صحابہ میں ہو تا تھا، مگر اس کے باوجودان کے علم اورتفقہ فی الدین میں تفوق کی وجہ سے حضرت عمر رضى اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں انہیں اپنی مخصوص مجلسوں میں شریک فرماتے تھے ، کچھ معمر لوگوں کو یہ بات اچھی نہیں لگی اور اعتراض کرتے ہوئے کہنے لگے: حضرت عمر رضى اللہ عنہ اس کو ہماری مجلسوں میں کیوں شریک کرتے ہیں؟ اس عمر کے تو ہمارے بچے ہیں ۔
حضرت عمررضى اللہ عنہ کو جب اس کی اطلاع ملی تو ایک دن ان لوگوں کو جمع کرکے پوچھا: إِذَا جَاء نَصْرُ اللّهِ وَالْفَتْحُ    (النصر: ١) کا کیا مطلب ہے ؟اس کی تفسیر بیان کیجئے، سب لوگوں نے اس کا عام معنی اور مطلب بتایا کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا ہے کہ جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے اور آپ لوگوں کو دین میں فوج درفوج داخل ہوتے دیکھئے اورتو اپنے رب کی حمد وثناء اور پاکی بیان کیجئے اور توبہ و استغفار کیجئے ،بے شک آپ کا رب توبہ قبول کر نے والا ہے۔
مگر جب آپ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضى الله عنہما سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے انتقال کی خبر دی ہے اور بتایا ہے کہ جب اللہ کی مدد آجائے اور مکہ فتح ہو جائے اور لوگ اسلام میں جوق درجوق داخل ہوں تو آپ اپنے رب کی تعریف و تسبیح میں لگ جائیے اور توبہ و استغفار کر تے ہوئے آخرت کی تیاری کیجئے، چنانچہ اب مکہ فتح ہو چکا ہے، لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہو رہے ہیں،اور اللہ نے جس مقصد كے لئے آپ کی بعثت فر مائی تھی وہ مقصد حاصل ہو گیا ہے، لہٰذا اب آپ کا مشن ختم ہو چکا ہے، اب آپ سفر آخرت کی تیاری کیجئے ۔ اسی بناء پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سورہ پڑھتے تو فرماتے کہ اللہ نے مجھ کو اختیار دیا ہے چاہے میں دنیا کو پسند کروں یا آخرت کو۔یہ سن کر حضرت عمر رضى اللہ عنہ نے فرمایا : ابن عباس رضى اللہ عنہ نے اس آیت کے بارے میں جو بتا یا ہے میں بھی وہی جانتا ہوں، اور اگر یہ کچھ اور بتاتے تو میں کہتاکہ انھوں نے غلطی کی ہے، اس طرح حضرت عمررضى اللہ عنہ نے لوگوں کو احساس دلایا اور بتایا کہ ابن عباس رضى الله عنہما کو اپنی خصوصی مجلسوں میں شریک کر نے کی وجہ ان کا علم وفضل ہے۔(صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري :4/ 248)
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ علم ترقی کا باعث ہے ، اس سے افراد کی بھی ترقی ہوتی ہے، اور پوری قوم کی بھی، بہر حال معلم علم کی نشر واشاعت کرکے قوم اور افراد کو ترقی دینے والا ہوتاہے۔ اس اعتبار سے تعلیم اور معلّمین کا بڑا مقام ہے ۔
تعلیم قرآن نزول رحمت وسکینت کا باعث
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طویل حدیث میں فرمایا:’’مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِى بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلاَّ نَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمُ الْمَلاَئِكَةُ وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ ‘‘(صحيح مسلم : 8/ 71)
جب بھی کچھ لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اکٹھا ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت کرتے اور اس کے معانی ومطالب کو سمجھتے سمجھاتے، اس کا درس دیتے اور سنتے ہیں تو ان پر سکینت کا نزول ہوتا ہے،ان پر رحمت الٰہی سایہ فگن ہوتی اور انہیں فرشتے گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کا تذکرہ اپنے پاس کے مقرب فرشتوں میں کرتا ہے۔
اس سے معلوم ہوتاہے کہ کتاب اللہ کی تلاوت اور اس کے درس وتدریس کا عمل بڑا ہی با برکت اور عظیم المرتبت عمل ہے ، تبھی توایسی مجلسوں میں فرشتے شرکت فرماتے ہیں اور اس عمل میں مشغول لوگوں پر اللہ کی رحمت اور سکینت کا نزول ہو تا ہے۔اور ان کے اس نیک عمل کا تذکر ہ اللہ تعالیٰ اپنے مقرب فرشتوں کے درمیان کرتا ہے۔
معلم قرآن سب سے بہتر
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ ‘‘(صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري: 6/ 236)
تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن کو خود سیکھے اور دوسروں کو بھی سکھائے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی تعلیم دینے والے کی بڑی فضیلت ہے اور اللہ کے نزدیک ایسا شخص سب سے بہتر اور افضل ہے۔
یاد رہے کہ یہاں قرآن کریم کی تعلیم میں قرآن ناظرہ پڑھانا، حفظ کرانا،تجوید و قراء ت کی تعلیم دینا اور اس کا ترجمہ اور تفسیربتانا سب داخل ہیں۔قرآن کی تعلیم کسی طرح کی بھی ہو سب ْ ’’ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ ‘‘کے عموم میں داخل ہیں، اور سبھی ’’خیر‘‘ کا باعث ہیں۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اساتذہ و معلّمات کو اگر ایک دو گھنٹیاں ناظرہ قرآن یا حفظ و تجوید کی دے دی جائیں تو ناک بھوں چڑھاتے ہیں ، اوراسے اپنے لئے ذلت و حقارت کی بات سمجھتے ہیں۔یہ سوچ غلط ہے ،قرآن کریم کی تعلیم بہر صور ت بڑے خیر وبرکت کی چیز ہے ،اس کا معلم بہر صورت ’’ خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ ‘‘ کا مصداق ہے۔
علاوہ ازیں قرآن پڑھانے والا استاذ ایک ایک حرف پڑھنے پر دس دس نیکیاں پائے گا ، اور اس کے یہ تلامذہ نماز میں یا خارج نماز جب بھی قرآن پڑھیں گے اس کو بھی اس کا ثواب ملے گا ۔ غور فرمائے کہ یہ کتنا بابرکت عمل ہوا، اس واسطے ناظرۂ قرآن وغیرہ کی تعلیم کو بھی حقیر نہیں سمجھنا چا ہئے ۔
استاذ حدیث كے لئے دعاء نبوی
قر آن کی تعلیم و تدریس کی طرح احادیث کی تعلیم کی بھی بڑی فضیلت ہے، جس بندہ کو اللہ کی جانب سے یہ توفیق مل جائے کہ وہ حدیث نبوی کو سنے،اسے یاد کرے،اس کے معانی ومطالب کو سمجھے اور پھر اسے تعلیم و تدریس کے ذریعہ دوسروں تک پہونچائے و ہ بڑا ہی خوش نصیب ہے۔اس كے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی ہی اچھی دعا ہے ۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيهٍ ‘‘(رواہ الشافعي بسند صحيح والبيهقي في المدخل,  انظر المشکاة : ۱ ؍ ۷۸)
اللہ اس بندے کو تروتازہ اور خوش و خرم رکھے جس نے میری حدیث کو سنا، پھر اسے یاد کیا ، پھر اسے سمجھا اور دوسروں تک پہونچایا،کیونکہ کبھی حامل فقہ(حافظ حدیث)غیر فقیہ ہو تا ہے اور کبھی یہ حامل فقہ (حافظ حدیث) ایک ایسے شخص تک حدیث پہونچاتا ہے جو اس سے زیادہ فقیہ ہو تا ہے۔
یعنی حدیث کے سننے، یاد کرنے اور سمجھنے کے بعد دوسروں تک پہونچانے میں مصلحت اور فائدہ یہ ہے کہ کبھی یہ حافظ حدیث فقیہ نہیں ہو تا ، اور حدیث کا جو ظاہری مفہوم ہے اس سے زیادہ اور مسائل کا استنباط واستخراج وہ اس سے نہیں کر سکتا،اور دوسرا شخص جس تک یہ حدیث پہونچاتا ہے وہ فقیہ ہو تا ہے،ا ور اس سے وہ اوربہت سے مسائل کا استنباط کرلیتا ہے۔اور کبھی یہ فقیہ ہو تا ہے مگر دوسرا اس سے بڑا فقیہ ہو تا اور اس سے زیادہ مسائل کے استنباط کی صلاحیت رکھتا ہے چنانچہ وہ اس حدیث سے اور بہت سارے مسائل کا حل اور جواب نکال لیتا ہے۔
اس حدیث سے احادیث نبویہ کے سننے ،پڑھنے ،یاد کرنے ،سمجھنے اور تعلیم وتبلیغ کے ذریعہ دوسروں تک پہچانے کی بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ نیز اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حفظ حدیث کے ساتھ فقہ الحدیث کی بھی بڑی اہمیت ہے، اور فقہ اور فقہاء کا بڑا مقام ہے کیونکہ فقہ کی خاطر ہی احادیث کی تعلیم وروایت کا حکم دیا گیا اور یہ فضیلت بتائی گئی ہے ۔
تعلیم ایک فریضہ اور کتمان علم موجب عذاب
تعلیم صرف ایک معزز اور فضیلت والا عمل ہی نہیں بلکہ ایک اہم دینی فریضہ ہے۔اسی سے دین کا قیام اور علم کی بقا ء ہے،اگرتعلیم و تدریس کا سلسلہ بند ہو جائے تو علم کا خاتمہ ہو جائے گا ،اور ہر طرف جہالت کا دور دورہ ہو گا، لوگ اپنے دین،اخلاق اور تہذیب وتمدن سے نابلد اوردور ہوجائیں گے، اس واسطے اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب سے تعلیم کا عہد وپیمان لیا: وَإِذَ أَخَذَ اللّهُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ لَتُبَيِّنُنّهُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَکْتُمُونَه     (آل عمران: ١٨٧) اور جب اللہ نے ان لوگوں سے جو کتاب دئے گئے یہ عہد لیا کہ اسے لوگوں سے بیان کرو گے اور چھپاؤ گے نہیں۔
اور ضرورت کے باوجود تعلیم سے روگردانی کرنے والوں اور علم کو چھپانے والوں کے بارے میں یہ خبر دی کہ ان پر اللہ کی اور لعنت کرنے والوں کی لعنت ہوتی ہے ،ارشاد باری ہے: إِنَّ الَّذِيْنَ يَکْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِنَاتِ وَالْهُدَی مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِیْ الْکِتَابِ أُولَئِکَ يَلعَنُهُمُ اللّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ  (البقرة: ١٥٩ )
جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجود یکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں كے لئے بیان کر چکے ہیں ، ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے ۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم حاصل کرنے کے بعد اسے دوسروں تک پہچانے کا حکم دیا اور فرمایا:’’ لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ ‘‘ (رواہ البخاری :۱؍۱۹۸ (۱۰۴) جو یہاں موجود ہے وہ اس شخص تک پہونچا دے جو یہاں حاضر نہیں ہے۔
اور کتمان علم کو اتنا بڑاجر م قرار دیاکہ اس کی بنا پر قیامت کے دن آگ کی لگام لگائے جا نے کی وعید سنائی، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَهُ ثُمَّ كَتَمَهُ أُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ ‘‘(رواہ احمد وابوداود والترمذی وحسنہ،وقال الألبانی:اسنادہ صحیح)جس سے کوئی علمی بات پوچھی گئی اور وہ اسے معلوم تھی پھر بھی اس نے اسے چھپایا تو قیامت کے دن اسکے منہ میں آگ کی لگام لگا ئی جائے گی۔
اور ایک حدیث میں ہے:’’ طَلَبَ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ ‘‘(رواه ابن عبد البر والبيهقي: وجمع السيوطي طرقه حتی أو صلها الیٰ الخمسين وحکم من اجلها علی الحديث بالصحة ، وحکی العراقي صحته عن بعض الائمة ، وحسنه غير ما واحد وقال الألبا ني: صحيح. انظرصحيح الجامع الصغير:4/11 ح 3809) علم کا طلب کرنا ہر مسلمان پر فر ض ہے۔
اور ظاہر ہے کہ جب ہر مسلمان پر علم کا حصول فرض ہے تو علماء اور مدرسین پر تعلیم وتدریس بھی فرض ہو گی، کیونکہ تعلیم کے بغیر حصول علم نا ممکن ہے اور قاعدہ ہے’’  مَالا يَتِمُّ الْوَاجِبُ اِلّا بِهِ فَهُوَ وَاجِبٌ ‘‘ یعنی جس کے بغیر کوئی واجب مکمل نہ ہو تو وہ بھی واجب ہو تا ہے، اورغالباً اسی بنا پر کتمان علم پر وہ وعیدیں وارد ہیں جن کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تاکید کرتے ہوئے فر مایا: ’’ بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً ‘‘ (صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 4/ 207) میری جانب سے پہنچادو خواہ ایک آیت ہی کیو ں نہ ہو۔
اس حدیث میں’’ بَلِّغُوا ‘‘ امر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، اور جب تک کوئی قرینۂ صارفہ نہ پایا جائے امروجوب پر دلالت کر تا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ تبلیغ علم اور تعلیم کتاب و سنت فرض ہے۔
اور تدریس بھی تعلیم و تبلیغ کا ایک ذریعہ ہے اس لئے یہ بھی فرض ہوگی،البتہ دوسرے دلائل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم بعض حالات میں فرض عین اور بعض حالات میں فرض کفایہ ہے ، جہاں صرف ایک ہی عالم لوگوں کے مسائل کو صحیح طریقہ پر سمجھنے اور سمجھانے والا ہووہاں اس کے اوپر ان کی تعلیم فرض عین ہوگی۔اورجہاں بہت سے علماء ہوں اور چند ایک کے تعلیم و تدریس کا کام انجام نہ دینے سے اس پر کوئی اثر پڑنے والا نہ ہو وہاں پر فرض کفایہ ہو گی ۔
بہرحال مجموعی طور سے مسلمانوں کا لحاظ کیجئے تو یہ فرض کفایہ ہے یعنی ہر بستی اور ہر قوم میں کچھ ایسے علماء کا ہونا فرض ہے جو وہاں لوگوں میں تعلیم و تربیت ،انذار وتبشیر اور امر بالمعروف والنھی عن المنکر کا فریضہ انجام دیں ،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:   وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُواْ کَآفَّةً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقّهُواْ فِیْ الدِّيْنِ وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (التوبة: ١٢٢ ) اور مؤمنوں کو یہ نہیں چاہئے کہ سب کے سب (حصول علم كے لئے ) نکل کھڑے ہوں، ایساکیوں نہیں کرتے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت نکل کر جایاکرے تاکہ وہ دین کا علم حاصل کریں اور یہ لوگ جب اپنی قوم میں واپس آئیں توان کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں۔
باب ثانی
کامیاب معلم کے اوصاف
تعلیم و تربیت کا عمل ایک بڑا ہی مقدس ، اہمیت کا حامل اور مشکل عمل ہے ۔ اس کو نتیجہ خیز اور صحیح طریقہ پر انجام دینے اور اس میں کامیاب ہونے کے لئے معلم کے اندر چند اوصاف کا پایاجانا نہایت ضروری ہے ۔ جو درج ذیل ہیں:
(۱)اخلاص:
ایک کامیاب معلم كے لئے سب سے پہلا اور ضروری وصف یہ ہے کہ وہ اپنے تدریس و تعلیم کے عمل میں مخلص ہو، اور اس کا اس عمل سے مقصد حصول رضائے الٰہی،احیاء علوم کتاب وسنت، شریعت اسلامیہ کی نشرو اشاعت،اصلاح معاشرہ،اور لوگوں کو شرک وکفر اور بدعات وخرافات سے نکال کر کتاب وسنت کی شاہراہ اور توحید وہدایت کے صراط مستقیم پر لگانا ہو۔
اس سے مقصد کوئی دنیوی غرض،حصول مال ودولت،جاہ و منصب،معاصرین پر فوقیت ، شہرت،طلبہ اور عوام کی بھیڑ جمع کرنا،دوسرے علماء کو شکست دے کر انہیں خاموش کر نا وغیرہ نہ ہو ۔
اس لئے کہ تعلیم وتعلّم ایک عبادت ہے جیسا کہ حدیث’’’’مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِى بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ ‘‘الخ سے معلوم ہو تا ہے،اور عبادت کی صحت اور قبولیت كے لئے اخلاص اور صحیح نیت شرط ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ حُنَفَاء وَيُقِيْمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّکَاةَ وَذَلِکَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ (البينة: ٥ ) انہیں حکم نہیں دیا گیا مگر اس کا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اس حال میں کہ وہ اسی كے لئے ا طاعت کو خالص کر نے والے ہوں۔
اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى ، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا ، أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ ‘‘(صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 1/ 2 , صحيح مسلم : 6/ 48)
تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے،اور ہرشخص كے لئے اس کی نیت کے مطابق اجر ہے ، چنانچہ جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول كے لئے ہے۔اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی کا سبب ہے،اور جس کی ہجرت دنیا کے حصول یا کسی خاتون سے شادی كے لئے ہے اس کی ہجرت اسی كے لئے ہے جس كے لئے اس نے ہجرت کی۔
اورجب ہجرت جیسا عمل جس میں آدمی اپنے گھر بار اور اعزاء واقارب کو چھوڑ کر دوسری جگہ چلا جاتا ہے بغیر سچی نیت کے عند اللہ مقبول اور مفید نہیں تو تعلیم وتدریس کا عمل بغیر اخلاص کے کیسے مقبول اور رضاء الٰہی کاموجب ہو گا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور بہت سے دوسرے مؤلفین نے اسی حدیث سے اپنی کتاب کا آغاز فرمایا ہے، اور اس سے ان کا مقصد اس کتاب کے پڑھنے اور پڑھانے والوں کو متنبہ کرنا ہے کہ وہ اپنی نیتوں کی اصلاح کرلیں،اور پڑھنے پڑھانے کا مقصد رضائے الٰہی اورا علاء کلمۃ اللہ کو بنالیں، کیونکہ اگر نیت درست نہیں تو یہ پڑھنا پڑھانا بے کار ، بلکہ وبال جان ہے، اور آخرت میں عذاب الٰہی کا موجب ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لاَ يَتَعَلَّمُهُ إِلاَّ لِيُصِيبَ بِهِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْيَا لَمْ يَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. يَعْنِى رِيحَهَا. (رواه احمد وابوداود وابن ماجه وصححه الحاکم والذهبي ، وقال العراقي : جيد ، وقال الألباني : اسناده صحيح.مشکاة:۱؍۷۸)
جس نے کوئی علم جس سے اللہ کی رضا مندی مطلوب ہو تی ہے دنیاوی فائدہ كے لئے حاصل کیا تو اس کو قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نہیں ملے گی۔
اور حضرت کعب بن مالک  رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِيُجَارِىَ بِهِ الْعُلَمَاءَ أَوْ لِيُمَارِىَ بِهِ السُّفَهَاءَ أَوْ يَصْرِفَ بِهِ وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْهِ أَدْخَلَهُ اللَّهُ النَّارَ ‘‘(رواه الترمذي وقال: غريب ، وقال الالباني:لکن يشهد له الحدثيان بعده . انظر المشکاة:۱؍۷۷)
جو شخص اس واسطے علم حاصل کرتا ہے تاکہ اس کی وجہ سے علماء پر فخر کرے،یا اَن پڑھ اور کم سمجھ لوگوں سے جھگڑا کرے، یا لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرے، تواللہ تعالیٰ اس کو جہنم میں داخل کرے گا ۔
اور حضرت ابو سعید خدری رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ إِنَّ أَوَّلَ النَّاسِ يُقْضَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ عليه رَجُلٌ اسْتُشْهِدَ فَأَتَى بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعْمَتَهُ فَعَرَفَهَا، فَقَالَ: مَا عَمِلْتَ فِيهَا ؟ فَقَالَ: قَاتَلْتُ فِي سَبِيلِكَ حَتَّى اسْتُشْهِدْتُ، قَالَ: كَذَبْتَ ولكنك قاتلت لأَنْ يُقَالَ: جَرِيءٌ فَقَدْ ثم أمر بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وعلمه وَقَرَأَ الْقُرْآنَ فَأَتَى بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، فَقَالَ: مَا عَمِلْتَ فِيهَا ؟ قَالَ: تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وعلمته وَقَرَأْتُ فيك الْقُرْآنَ وَعَلَّمْتُهُ، قَالَ: كَذَبْتَ ولكنك تعلمت العلم ليقال : عالم ، وقرأت القرآن ليقال : هو قارئ فَقَدْ قِيلَ ثم أمر بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللهُ مِنْ أَنْوَاعِ الْمَالِ فَأَتَى بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، فَقَالَ: مَا عَمِلْتَ فِيهَا ؟ فقَالَ: مَا تَرَكْتُ مِنْ شَيْءٍ تُحِبَّ أَنْ أُنْفِقَ إِلَّا أَنْفَقْتُ فِيهِ لَكَ، قَالَ: كَذَبْتَ إِنَّمَا أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ: فُلَانٌ جَوَادٌ فَقَدْ قِيلَ فَأُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ ، وَرَجُلٌ وسَّعَ اللّهُ عَلَيهِ وأَعْطَاهُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ کُلِّهِ ، فَاُتِيَ بِهِ فعرَّفهُ نِعَمَهُ، فَعَرَفَهَا، قَالَ:فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ:مَاتَرَکْتُ مِنْ سَبِيْلٍ تُحِبُّ أن ينْفَقَ فِيهَا اِلاَّأنْفَقْتُ فِيهَا لَکَ قَالَ:کَذَبْتَ، وَلٰکِنَّکَ فَعَلْتَ لِيُقَالَ:هُوَ جَوَادٌ، فَقَدْ قِيْلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فسُحِبَ علٰی وَجْههِ ثُمَّ اُلقِيَ فِي النَّارِ‘‘(رواه مسلم،انظر المشکاة:۱؍۷۱-۷۲)
سب سے پہلے قیامت کے دن جس کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا وہ ایک شہید ہو گا،اس کو لایا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نعمتوں کی یاد دلائے گا، وہ ان نعمتوں کوپہچان لے گا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس سے فر مائے گا کہ تو نے اس سلسلہ میں کیا عمل کیا ؟ تو وہ کہے گا کہ میں نے تیری راہ میں جہاد کیا یہاں تک کہ شہید کر دیا گیا، اللہ تعالیٰ فر مائے گا تو نے غلط کہا، تو نے اس لئے جنگ کی تھی تاکہ تجھے بہادر کہا جائے، اور تجھے یہ کہا گیا۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور اس کو منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
دوسرا وہ شخص ہوگا جس نے علم حاصل کیا اور دوسروں کو تعلیم د ی اور قرآن پڑھا، اس کو بھی لا یا جائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کو اسے بتائے گا جن کا وہ اعتراف کرے گا ،پھر اللہ تعالیٰ اس سے فر مائے گا کہ تو نے اس کے بارے میں کیا عمل کیا ؟ وہ کہے گا میں نے علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور تیری رضا کے لئے قرآن پڑھا، اللہ تعالیٰ فر مائے گا :تو نے کذب بیانی کی، تو نے علم اس لئے سیکھا تھا تاکہ تجھے عالم اور قاری کہا جا ئے ،اور لوگوں نے تجھے کہا، پھر اس کے بارے میں بھی حکم ہو گا اور منھ کے بل گھسیٹ کر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔
تیسرا وہ شخص ہوگا جس کو اللہ نے ہر قسم کے مال ومتاع سے نوازا ،اس کو بھی لایا جائے گا اور اس کے سامنے بھی نعمتوں کا تذکرہ کیا جائے گا ،وہ ان کا اعتراف کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ فر مائے گا کہ تو نے اس مال سے کیا عمل کیا؟ وہ عرض کرے گا :مولا میں نے کوئی راہ نہ چھوڑی جہاں تیری رضا کے لئے مال خرچ نہ کیا ہو، اللہ تعالیٰ فر مائے گا تو نے کذب بیانی کی، تونے اس لئے مال خرچ کیا تاکہ تجھے سخی کہا جائے، اور وہ کہا گیا، پھر اس کے بارے میں بھی حکم دیا جائے گا اور منہ کے بل گھسیٹ کر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
اس واسطے اساتذہ و معلّمین کو سب سے پہلے اپنی نیتوں کی اصلاح کرنی چاہئے ،ان کا یہ عمل خالصۃً لوجہ اللہ ہونا چاہئے،اور تنخواہ اور دیگر مراعات کو اصل مقصد ہر گز نہیں بنا نا چاہئے،یہ سب ثانوی چیزیں ہیں اور انہیں ثانوی درجہ ہی میں ہی رکھنا چاہئے ،ورنہ آخرت میں ساری محنت رائیگا ں چلی جائے گی اور بڑے بھیانک انجام کا سامنا کرنا پڑے گا۔اَعاذَنا اللّهُ مِن هذِهِ البَلِيَةِ و الخَسَارَةِ۔
(۲) طلبہ کی تعلیم وتر بیت اور اصلاح کا حریص ہو نا:
استاذکو اپنے طلبہ وطالبات کی تعلیم وتربیت اور اصلاح کا بہت حریص ہونا چاہئے،ان کی تعلیمی ترقی اور اصلاح کے لئے خود بھی خوب محنت کرنی چاہئے اور ان سے بھی خوب محنت کرانی چا ہئے ۔ اگر ان کے اندر کوتاہی اور غفلت دیکھے تو انھیں بار بار نصیحت کرے ۔ اچھی طرح سمجھائے، علم کی اہمیت وفضیلت بتائے ۔ان کی کامیابی اور ہدایت کے لئے دعائیں کرے۔ اوراگر اس کی محنت اور جد وجہد کے باوجود کوئی طالب علم راہ راست پر نہیں آتا تو اسے اس پر غم اور افسوس ہو ۔
ایک استاذکو اپنے طلبہ کی تعلیم وتربیت کی ہر وقت فکر رہنی چاہئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو معلم انسانیت تھے اور جن کی زندگی تمام اساتذہ ومعلّمات کے لئے اسوہ اور نمونہ ہے آپ کو اپنی امت کی اصلا ح و ہدایات کی اس قدر فکر تھی کہ شب و روز اس کے لئے محنت کرتے،ہر طرح سے انھیں سمجھاتے،قر بانیاں دیتے،تکلیفیں برداشت کر تے۔پھر بھی جب وہ راہ راست پر نہیں آتے اور ایمان اوررشد وہدایت کی راہ اور صراط مستقیم پر نہیں چلتے تو آپ کو ایسا غم ہو تاکہ لگتا اس کی وجہ سے آپ اپنے نفس کو ہلاک کر ڈالیں گے۔اللہ تعالیٰ آپ کو خطاب کر کے فرماتا ہے:فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلَی آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيْثِ أَسَفاً  (الكهف: ٦) لگتا ہے اگر یہ لوگ اس قرآن پر ایمان نہیں لائیں گے تو آپ ان کے پیچھے اپنے نفس کو ہلاک کرڈالیں گے۔
اس واسطے اسوۂ نبوی کے مطابق اساتذہ و معلّمات کو بھی اپنے تلامذہ کی تعلیم و تربیت کے لئے بھر پور محنت اورجدوجہد کرنی چاہئے۔طلبہ کو خوب شوق اور جذبہ سے پڑھانا چاہئے۔ کلاس میں ٹائم پاس نہیں کرنا چاہئے۔
(۳)تعلیم و تدریس سے دلچسپی :
کسی بھی عمل میں کامیابی کے لئے اس کا شوق اور دلچسپی سے انجام دینا ضروری ہے ،اگر کسی کام سے دلچسپی نہ ہو اور اسے بادل نخواستہ انجام دیا جائے تو پھر اس میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوتی ہے۔ اور جو شخص بھی کسی کام کو اپنے دل کی آمادگی اور ہنسی خوشی سے انجام نہیں دے گا اس میں وہ کامیاب نہیں ہوگا ۔ اس واسطے تعلیم و تربیت کے عمل میں کامیابی کے لئے بھی اس سے دلچسپی ہونا اور شوق و رغبت سے انجام دینا ضروری ہے اور کسی بھی استاذ اور معلمہ کو تربیت و تعلیم کا پیشہ اختیار کرنے سے قبل یہ جائز ہ لینا ضروری ہے کہ اس کے اندر اس کے لئے رغبت اور خواہش ہے یا نہیں ۔ اور وہ اس کام کو پورے شوق و ذوق اور دلچسپی سے انجام دے سکتا ہے یا نہیں ۔ اگر اس کے اندر اس کا شوق اور قلبی رجحان و میلان ہو تو ٹھیک ہے ورنہ اس خار دار اور دشوار گذار وادی میں اسے قدم نہیں رکھنا چاہئے۔
کچھ لوگوں کو تعلیم و تدریس سے دلچسپی نہیں ہوتی ہے، مگر کسی کے دباؤ کی وجہ سے تدریس کا پیشہ اختیار کرلیتے ہیں اور نا کام رہتے ہیں ، ایسے لوگوں کو چاہئے کہ پوری جرأت سے اس حقیقت کا اعتراف اور اظہار کر کے اس پیشہ کو ترک کردیں اور جس کام سے دلچسپی ہو اس کو اختیار کریں۔ بعض لوگ کوئی کام نہ ملنے کی وجہ سے کسی مدرسہ میں پڑھانے لگتے ہیں ۔ اور بچوں کو محنت سے نہیں پڑھاتے ، بلکہ وقت گذاری کرتے ہیں اور دوسرا کام تلاش کرتے رہتے ہیں اور جیسے ہی دوسرا کام مل جاتا ہے مدرسہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔یہ تعلیم اور طلبہ پر بڑا ظلم ہے ،ایسے حضرات عند اللہ جوا بدہ ہوں گے، مدرسہ کے ذمہ داروں کو بھی ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ جوذمہ داران مدارس ایسے لوگوں کو کم تنخواہ کی بنا پر تلاش کرتے ہیں وہ بھی بہت بڑی غلطی کا شکار ہیں۔انھیں اس سے احتراز کرنا چاہئے ،ورنہ وہ بھی عند اللہ مسؤل ہوں گے۔
(۴)وضع قطع ،صفائی ستھرائی اور اخلاق وغیرہ میں مثالی ہو نا:
اساتذہ کو شکل و صورت ، وضع قطع، لباس، صفائی ستھرائی ، اخلاق و محبت ، وعدہ وفائی ، کلاس میں حاضری ، روزہ، نماز ، وقت کی پابندی اور دیگر تمام ذمہ داریوں اور فرائض اور واجبات کی ادائیگی میں اپنے آپ کو مثالی بنا کر رکھنا چاہئے ۔اس واسطے کہ طلبہ و طالبات ان کو اپنے لئے اسوہ و نمونہ اور آئیڈیل مانتے ہیں۔ انھیں کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔اور جتنا اعتماد انھیں اپنے اسا تذہ و معلّمات پر ہوتا ہے اتنا اعتماد انھیں اپنے والدین پر بھی نہیں ہوتاہے ۔ کیونکہ وہ انکو علم وفضل،تقوی وپرہیز گاری ، اخلاص واخلاق اور حکمت و دانائی میں اعلی معیار پر سمجھتے ہیں۔اس واسطے اساتذہ و معلّمات کو ہمیشہ اپنے منصب ومقام کا خیال رکھنا چاہئے۔ اور ہر چیز میں طلبہ وطالبات کے سامنے بہترین اسوہ پیش کرنا چاہئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو معلم انسانیت تھے آپ کی حیات مبارکہ پر نظر ڈالئے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہر نیک عمل میں دوسرں كے لئے اسوۂحسنہ تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ  (الأحزاب: ٢١) بیشک تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔حضرت عائشہ رضى الله عنہا  جو آپ کی زوجہ مطہرہ تھیں اور آپ کے ظاہری و باطنی اور خارجی و داخلی امور اور تمام حالات سے سب سے زیادہ واقف تھیں وہ فرماتی ہیں: ’’ كَانَ خَلْقُهُ الْقُرْآنَ ‘‘ (مسند أحمد بن حنبل: 6/ 91)آپ کا اخلاق اور آپ کی سیرت قرآن کریم کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔
چنانچہ اگر آپ نے عبادت کا حکم دیا تو آپ کا حال یہ تھا کہ عبادت الٰہی کے لئے اتنی محنت کرتے اور راتوں کو اتنی دیر تک نمازیں پڑھتے کہ آپ کے پاؤں پر ورم آجاتا اور جب آپ سے کہا جاتا کہ آپ کے تو تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کردئے گئے ہیں پھر آپ اس قدر کیوں عبادت کرتے ہیں ؟ تو آپ فرماتے:’’ أَفَلاَ أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا ‘‘ کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔(صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 2/ 63 , صحيح مسلم :  8/ 141)
آپ کے جو د و سخا کا یہ عالم تھا کہ حضرت انس رضى اللہ عنہ کے بقول آپ سے جب بھی کوئی چیز طلب کی گئی آپ کی زبان مبارک سے کسی نے لفظ ’’نا ‘‘نہیں سنا ،ایک بار ایک شخص نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کیا توآپ نے اس کو اتنی بکریاں عطافرمائیں کہ اس نے اپنی قوم میں جاکر کہا : لوگو! اسلام قبول کرلو، کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اتنا عطاکرتے ہیں کہ پھر فقر وفاقہ کا کوئی خوف نہیں رہتا ۔ ( صحیح مسلم کتاب الفضائل ،باب فی سخاوۃ صلی اللہ علیہ وسلم: ۶؍۳۰)
آپ کے زہد وقناعت کی یہ حالت تھی کہ چٹائی پر سوتے اور آپ کے بدن پر اس کے نشانات بن جاتے، صحابہ کرام  رضى الله عنہم  نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول!کیوں نہ ہم آپ كے لئے ایک بچھونا تیار کر دیں ، جسے آپ چٹائی پر بچھا لیا کریں۔ آ پ نے فرمایا: مجھے دنیا سے کیا لینا دینا ہے، میرا تو اس سے بس اتنا ہی تعلق ہے جیسے کوئی مسافر ایک پیڑ کے نیچے سستانے كے لئے کچھ دیر بیٹھے اور پھر وہاں سے چل د ے ۔(رواہ الترمذی وقال: ھذا حدیث حسن صحیح )
فقر و فاقہ پر صبر کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ کچھ صحابہ کرام رضى الله عنہم  نے اپنے فقر و فاقہ کی شکایت کی اور کرتہ اٹھا کر پیٹ پر بندھا ہو ا پتھر دکھایا اور کہنے لگے : اے اللہ کے رسول! ہم نے شدت بھوک سے پیٹ پر پتھر باندھ رکھا ہے ۔ آپ نے اپنے بطن مبارک سے چادر ہٹائی تو شکایت کرنے والے صحابی نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیٹ پر ایک کے بجائے دو پتھر باندھ رکھے ہیں ۔ پھر وہ بھی صبر و رضا کا پیکر بن گیا ۔ ( رواہ الترمذی : ۴؍ ۵۸۵ (۲۳۷۱)
آپ کے اللہ پر توکل و اعتماد اور حوصلہ کی بلندی کا یہ عالم تھا کہ ایک غزوہ سے واپسی میں ایک منزل پر پہونچ کر آپ نے صحابہ کرام ث کو آرام کرنے کا حکم دیا اور خود بھی اپنی تلوار ایک ببول کے درخت پر لٹکا کر آرام فرمانے لگے ، تھوڑی دیر بعد ایک دشمن ادھر آنکلا ، آپ کو سوتا دیکھ کر اس نے موقع کو غنیمت سمجھا ،اورآپ کی تلوار اپنے ہاتھ میں لے کر ناپاک ارادہ سے اسے سونتا کہ آپ کی آنکھ کھل گئی، آپ فوراً کھڑے ہو گئے ۔ دشمن نے تلوار دکھا تے ہوئے کہا:’’ مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي ؟‘‘ اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ نے بڑے اعتماد اور حوصلہ و جرأ ت سے فرمایا: ’’ اللَّهُ ‘‘، یہ سن کر اس کے ہاتھ پاؤں تھر تھر کانپنے لگے اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گئی، آپ نے تلوار اٹھا لی اور فرمایا: ’’ مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي ؟ ‘‘ بتا ؤ اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا ؟ یہ سن کر وہ دشمن معافی مانگنے لگا اور آپ سے کبھی نہ لڑنے کا عہد کیا تو آپ نے اسے معاف کردیا۔( صحيح البخاري: 4/ 48)
غرضیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبادت وریاضت ،جود وسخا، صدق وصفا ، امانت و دیانت، جرأت و شجاعت ، زہدو تقو ی ، صبر و ضبط ، اخلاق و محبت، وعدہ وفائی وغیرہ ہر چیز میں لوگوں كے لئے اسوہ و نمونہ تھے ۔
اسی طرح اساتذہ و معلمات کو بھی اپنے تلامذہ کے لئے ہر اچھی چیز میں اسوہ اورنمونہ ہونا چاہئے، ورنہ ان کی تعلیم و تربیت کا خاطر خواہ فائدہ نہ ہوگا۔ کیونکہ حسن عمل اور اعلی کردار کے بغیر نہ تعلیم و تر بیت مؤثر ہوتی ہے ،نہ وعظ و نصیحت ۔ بلکہ اس پر اللہ کی وعید ہے، ارشاد خدا وندی ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (2) کَبُرَ مَقْتاً عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ  (الصف: ٢ - ٣)
اے مومنو! تم ایسی باتیں کیوں کہتے ہو جن پر خود عمل نہیں کرتے، اللہ کے نزدیک یہ بڑی ناپسندیدہ اور ناراضگی کی بات ہے کہ تم لوگ ایسی باتیں کہو جن کو تم خود نہیں کرتے ۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بسند صحیح مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: قیامت کے دن ایک شخص کو لا کر جہنم میں ڈالا جائے گا ۔ جہنم میں اس کی انتڑیاں با ہر آجائیں گی اور وہ ان کے درمیان اس طرح چکر کاٹے گا جیسے گدہا چکی کولے کر گھومتا ہے، یہ دیکھ کر اہل جہنم اس کے ارد گرد جمع ہوجائیں گے اور کہیں گے: اے فلاں! یہ تم کو کیا ہوا؟ کیا تم دنیا میں لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے منع نہیں کرتے تھے ؟ وہ کہے گا: ہاں ایسا ضرور تھا، لیکن میں تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتا تھا اور خود نہیں کرتا تھا ، اور تمہیں بری باتوں سے روکتا تھا اور خود کرتا تھا ، اس واسطے آج مجھے یہ سزا دی گئی ہے۔(متفق علیہ)
بہر حال اساتذہ و معلّمات کو اعمال صالحہ ، اخلاق فاضلہ، شکل و صورت، لباس اور وضع قطع، منکرات و محرمات سے اجتناب اور ہر اچھی چیز میں اپنے طلبہ و طالبا ت اور تمام لوگوں كے لئے بہتر ین نمونہ ہونا چاہئے۔ اسواسطے کہ طلبہ کلاس میں صرف استاذ کے درس اور لیکچر کو نہیں سنتے، بلکہ ان کے لبا س ، وضع قطع ،عادت و اطوار اور عقائد و خیالات وغیرہ کا بھی اثر لیتے ہیں ۔ لہٰذا اگر اساتذہ کر ا م طلبہ کی صحیح تعلیم و تربیت کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اپنا جائزہ لیں اور جو اعلیٰ اقدارواوصاف ان کے اندر پیدا کرنا چاہتے ہیں پہلے اپنے اندر پیدا کریں ۔طلبہ میں ا نھیں چیزوں کا انعکاس ہوگاجو اساتذہ میں ہوگا ۔
(۵)باصلاحیت ہونا:
ایک مدرس کے لئے ضروری ہے کہ وہ جس فن یا کتاب کو پڑھانے کے لئے لے اس میں اسے اچھی طرح مہارت حاصل ہو ،یا کم از کم اس کے اندر اتنی لیاقت اور صلاحیت ہو کہ وہ مطالعہ کرکے اس کی تیاری کرسکے اور طلبہ کو اسے اچھی طرح پڑھاسکے اور اس کا حق ادا کرسکے ۔ اگر کسی کے اندر اتنی علمی لیاقت نہ ہو تو اس کے لئے تدریس کا عمل مناسب نہیں ، البتہ اگر وہ بڑی جماعت کی کتابوں اور طلبہ کو نہ پڑھاسکتا ہو مگر چھوٹی جماعتوں میں تدریس کا عمل بآسانی انجام دے سکتا ہو تو بلا تکلف صدر مدرس سے اظہار حقیقت کر کے جس جماعت کی کتابوں کو بآسانی پڑھاسکتا ہو اس کی گھنٹیاں لے لے ۔ اور اگر کوئی خاص مضمون یا خاص کتاب پڑھانے میں اس كے لئے پریشانی ہوتو ذمہ داروں سے کہہ کر اس کے بدلے دوسرا مضمون یا کتاب لے لے ،ویسے نئے مدرسین كے لئے زیادہ مناسب یہی ہوتا ہے کہ کسی بھی فن کو اس کی ابتدائی کتابوں سے پڑھانا شروع کریں اور جب ایک دو سال اسے پڑھالیں اور اچھی طرح اس کتاب کو سمجھ لیں اور اطمینان ہوجائے تب اس سے اونچی کتاب پڑھائیں ، اس طرح آہستہ آہستہ آگے بڑھتے رہیں اور پھر بڑی بڑی کتابوں کو پڑھانے لگیں ۔
 بعض اساتذہ کو ہم نے دیکھا ہے کہ وہ ذہین ، محنتی اور با صلاحیت و باہمت ہوتے ہیں اور شروع ہی سے بڑی کتابیں پڑھانے لگتے ہیں مگر ایسا کم اور عموما چھوٹے مدارس میں ہوتا ہے۔ بہر حال مدرس جو فن یا کتاب پڑھائے اس کو اس پر دسترس اور عبور ہونا چاہئے اور بلا صلاحیت اور علم کے پڑھانا درست نہیں ،ارشاد باری ہے : وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُولئِکَ کَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً   (الإسراء: ٣٦) جس چیز کاتمہیں علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو، بیشک کان ، آنکھ اور دل کے بارے میں ان میں سے ہر ایک سے سوال کیا جائے گا ۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : قُلْ َهذِهِ سَبِيْلِیْ أَدْعُو إِلَی اللّهِ عَلَی بَصِيْرَةٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ  (يوسف: ١٠٨)اے نبی کہہ دیجئے یہ میرا راستہ ہے ، میں اور میرے متبعین بصیرت کے ساتھ اللہ کی جانب دعوت دیتے ہیں ۔
(۶)متواضع ہونا:
استاذ کو ہمیشہ متواضع ہو نا چاہئے، اور تعلي اور فخرو مباہات سے اجتناب کرنا چاہئے ،تواضع ہر آدمی کا بہترین زیور ہے، اس سے اس کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوتاہے،لوگ اس سے محبت اور اس کی مجلسوں سے خوب استفادہ کرتے ہیں ،اور متکبرشخص سے لوگوں کو نفرت ہوتی ہے،کہتے ہیں جو درخت جتنا زیادہ پھل دار ہوتا ہے وہ اتنا ہی جھکا ہوا ہوتا ہے ،اسی واسطے جس استاد کے پاس جتنا زیادہ علم ،صلاحیت اور تقوی وپرہیزگاری ہو اسے اتنا ہی متواضع ہونا چاہئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بعض اوقات کوئی اعرابی آجاتا اورآپ کے ساتھ گستاخی اور بے ادبی سے پیش آتا، مگر آپ خندہ پیشانی سے اس کو جواب دیتے اور صبر وضبط سے کام لیتے ۔تواضع آپ کا شیوہ تھا، آپ خود تکبر اور فخرو مباہات سے بچتے تھے اور صحابہ کرامث کو بھی بچنے کی تلقین کرتے تھے۔
ہمارے اسلاف کے تواضع کا یہ حال تھا کہ جب ابو جعفر منصور نے حج کیا تو وہ مدینہ منورہ بھی آیا ،وہاں اس نے امام مالک  رحمہ الله کو بلایا اور کہا : میں چاہتا ہوں کہ آپ کی کتاب ’’الموطأ‘‘ کے متعدد نسخے بنوا ؤں اور ایک ایک نسخہ ہر شہر میں بھیج دوں اور لوگوں کو حکم دوں کہ جو مسائل اس میں ہیں انھیں پر عمل کریں ۔اور ان کے علاوہ جو مسائل ان کے پاس ہوں ان کو ترک کریں ۔کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں اس کی اصل اہل مدینہ کی روایت اور ان کا علم ہے ۔مگر امام مالک  رحمہ الله نے عرض کیا : امیر المؤمنین! ایسا نہ کیجئے ،لوگوں کے پاس اس سے پہلے بہت سی باتیں پہونچی ہیں ،لوگوں نے بہت سی حدیثیں سنی ہیں،صحابہ کے اقوال و فتاوی پر ان کا عمل ہے ،اور اب ان کے لئے ان فتاووں اور احادیث کا چھوڑنا بہت گراں اورمشکل ہو گا۔اس واسطے جن مسائل پر وہ عمل کرتے ہیں انھیں کرنے دیجئے اور اس کتاب پر عمل کرنے پر مجبور نہ کیجئے ۔
ایک مرتبہ عبد الرحمن بن قاسم رحمہ الله نے امام مالک  رحمہ الله سے کہا: اہل مصر سے زیادہ میں کسی کو بیوع کا علم رکھنے والا نہیں جانتا، امام مالک رحمہ الله نے پوچھا : ایسا کیوں ہے ؟ انھوں نے عرض کیا : آپ کی وجہ سے ۔ امام مالک رحمہ الله نے فرمایا: میں تو خود بیوع نہیں جانتا ،پھر وہ لوگ میری وجہ سے اس کو کیسے جانیں گے ؟ یہ تھا اما م مالک رحمہ الله کا تواضع۔
اور اس میدان میں امام مالک ؒ اکیلے نہیں ہیں، بلکہ ہمارے اسلاف کا یہی طریقہ تھا۔ امام شافعیؒ فرماتے تھے : میری خواہش ہے کہ لوگ مجھ سے یہ علم سیکھ لیں اور اس کی نسبت میری جانب نہ کریں اور نہ ہی لوگ میری تعریف کریں، تاکہ مجھے اس کا اجرو ثواب ملے ۔
بہر حال استاذ کو تواضع اختیار کرنا چاہئے اور کبر و نخوت اور بیجا ڈینگ ہانکنے سے اجتناب کر نا چاہئے۔
(۷)باہمّت ہونا:
ایک استاذ کوباہمت اور بارعب ہونا چاہئے، تاکہ وہ پوری جر ا ء ت اور اطمینان قلب کے ساتھ طلبہ کو کلاس میں پڑھا سکے ،ان کے اخلاق و عادات کی اصلاح کر سکے ، ان کے اعتراضات اور سوالات کے جواب دے سکے ، ان کے ساتھ بحث و مباحثہ کر سکے ۔ اور اس کے رعب کی وجہ سے طلبہ مطالعہ کرکے اور سبق و آموختہ یاد کرکے آئیں ، اور ہوم ورک وغیرہ کرنے میں سستی نہ کریں ، اس کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھیں،اور ادارہ کے اصول و ضوابط کی پابندی کریں۔
شروع شروع میں ہر استاذ و معلمہ کو کلاس میں طلبہ کے سامنے کھڑے ہونے اور بولنے اور اسباق کے پڑھانے میں کچھ خوف محسوس ہوتا ہے اور گھبراہٹ ہوتی ہے ، لیکن آہستہ آہستہ یہ خوف ختم ہوجاتا ہے، ہمت مضبوط اور جھجک دور ہوجاتی ہے ، اور پھر ایسی عادت ہوجاتی ہے کہ درس اور لیکچر وغیرہ میں ذرا بھی پریشانی نہیں ہوتی ۔ مگر کچھ لوگ دل کے بڑے کمزور اور پست ہمت ہوتے ہیں ، اور کلاس میں جانے کے تصور سے ہی وہ پریشان ہوجاتے ہیں ، اور کلاس میں پہونچ کر تھر تھر کانپنے لگتے ہیں ،ہوش و حواس کھو دیتے ہیں ، زبان خشک ہوجاتی ہے ، چہرے کا رنگ فق ہوجاتاہے اور جب بھی پڑھانے جاتے ہیں ان کا یہی حال ہوتا ہے ، چنانچہ نہ وہ درس کی تشریح خاطر خواہ انداز میں کر پاتے ہیں ،نہ کلاس میں طلبہ پر کنٹرول کرپاتے ہیں، نہ طلبہ پر ان کا رعب رہتا ہے کہ اسباق و آموختہ یاد کر یں اور ہوم ورک کرکے لائیں، نہ وہ طلبہ سے ادارہ کے قوانین کی پابندی کراپاتے ہیں ، اس طرح وہ تعلیم و تربیت کے عمل میں بالکل ناکام رہتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو تعلیم و تربیت کا عمل ترک کر کے کوئی دوسرا کام کرنا چاہئے ، اور اس میدان میں انھیں لوگوں کو قدم رکھنا چاہئے جن لوگوں کے پاس ہمت و جرأت ہو، جو اپنی بات کو بلا جھجک طلبہ کے سامنے پیش کرسکیں ،جو عبارت خوانی اور مسائل کی تشریح کرتے وقت نہ گھبرائیں ،نہ ڈ ریں ،جو طلبہ پر کنٹرول کرسکیں، جو طلبہ کے اعتراضات کا بے با کی سے جواب دے سکیں، جو ان کی شرارتوں اور شور ہنگاموں سے دل برداشتہ نہ ہوں، بلکہ کمال جرا ء ت ودانشمندی سے ان کا علاج کر سکیں، جو حق بات کہیں اور’’ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنے ہوئے بیٹھے نہ رہیں۔
بہر حال اخلاص وعلم کے ساتھ اساتذہ ومعلمات میں مناسب جراء ت وہمت کی بھی ضرو ر ت ہے۔اس کے بغیر تعلیم وتربیت کا عمل صحیح طریقے پر انجام نہیں دیا سکتا۔
(۸)خوش اخلاق وملنسارہونا:
معلم کو بڑاہی خوش اخلاق ، صابر ،ملنسار اور خوش طبع ہونا چاہے، اسے طلبہ وطالبات سے ہمیشہ خندہ پیشانی اور نرمی سے پیش آنا چاہئے۔انھیں اپنے بچوں کی طرح سمجھنا چاہئے،ان کے ساتھ شفقت و محبت کا سلوک کرنا چاہئے ، اگر کوئی طالب علم بیمار ہو تو مزاج پرسی کرنا اور اس کے دوا علاج کی فکر کرنی چاہئے ،چھوٹے بچوں کو تسلی دینا اور حال چال معلوم کرنا چاہئے ،اگر کوئی بچہ غریب اور مالی اعتبار سے کمزور ہے تو بقدر استطاعت اس کی مدد کرنا یا سفارش کرنا چاہئے ۔اسی طرح اگر کوئی بچہ پڑھنے میں کمزور ہے تو درس سے خارج اوقات میں اس کو پڑھا دینا یا کسی اچھے اور ذہین طالب علم کو اسے پڑھانے كے لئے لگا دینا چاہئے ، اس سے ان کی ہمت افزائی ہوتی ہے ،مدرسہ اور اس کے ماحول سے وہ جلدمانوس ہوجاتے ہیں اور پڑھنے میں ان کا دل لگنے لگتا ہے اور کامیاب ہو جاتے ہیں اور کبھی ان سے بے ادبی اور نالائقی سرزد ہو جائے تو ان سے الجھنے کی بجائے عفو و درگذر سے کا م لینا ، محبت سے انھیں سمجھانا اور اصلاح کرنے کی کوشش کرناچاہئے ۔ اور جب اس سے کام نہ چلے تب زجر وتوبیخ اور سزا کے طریقے استعمال کرنا چا ہئے ۔
بعض علماء کرام نے لکھا ہے کہ بچوں کی اصلاح وسزا کے سلسلہ میں وہی اسلوب اور طریقہ اختیار کرنا چاہئے جو بیو ی کی اصلاح کے لئے شریعت اسلا میہ نے بتا یا ہے ،یعنی پہلے انہیں اچھی طرح سمجھانا چاہئے ، اس سے کام نہ چلے توزجر وتوبیخ کرنا چاہئے ،اس سے بھی کام نہ چلے تو ان سے بات چیت بند کردینا چاہئے، اور اس سے بھی کام نہ چلے تب سزادینا چاہئے، مگر اصلاح کی نیت سے اور مناسب اور ہلکی سزا دیں اور چہرے اور نازک وحساس اعضاء پر نہ ماریں ،مقصد اصلاح ہو، تعذیب نہ ہو ، اور طلبہ کی اصلاح و تربیت میں ان کے سرپرستوں اور دیگر اساتذہ اور ذمہ داروں سے بھی مدد لیں اور جب کسی طرح اصلاح نہ ہو سکے تب اخراج کی سفارش کریں۔
اسی طرح اساتذہ کو اپنے زملاء ،طلبہ کے سرپرستوں اور ادارہ کے ذمہ داروں وغیرہ کے ساتھ بھی خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہئے،اس سے طلبہ وغیرہ پر بڑا اچھا اثر پڑتا ہے، ان کی اخلاقی تربیت ہوتی ہے اور ایک دوسرے سے تعلق خاطر اور محبت ہوتی ہے اور وہ بھی ان کی عزت واحترام اور قدر کر نے لگتے ہیں۔
(۹)زبان وبیان پر قدرت رکھنا:
اساتذہ و معلّمات کو زبان وبیان پر بھر پور قدرت ہو نی چاہئے، تا کہ وہ مضمون ،طلبہ کے معیار، اور حالات وظروف کے مطابق مناسب الفاظ میں اپنے مافی الضمیرکی تعبیر کر سکیں اور اپنی باتوں کو طلبہ کے سامنے اسطرح پیش کر سکیں کہ وہ جلد از جلد اور اچھی طرح سمجھ جائیں اور وہ باتیں ان کے دل وماغ کو اپیل کر سکیں اور ذہن میں راسخ ہو جائیں۔ ان کا اسلوب خوبصورت اوردلکش ہونا چا ہئے، ان کے اندر اتنی صلاحیت ہونی چاہئے کہ مختلف پیرائے میں اپنی باتوں کو سمجھا سکیں اور وقت پر منا سب الفاظ اور جملوں کا استعمال کر سکیں۔ تذکیر وتانیث اور واحد و جمع کے استعمال اور رعایت میں ان سے غلطی نہ ہو۔ وہ الفاظ کے صحیح تلفظ سے واقف ہوں اور انھیں ان کے مخارج کی رعایت کر کے ادا کرتے ہوں، انھیں اچھے اچھے جملے، مثالیں، آیات واحادیث ،حکماء کے اقوال ، مصطلحات ، ضرب الامثال اور اشعار وغیرہ مناسب مقدار میں یادہوں اور ان کابروقت استعمال جانتے ہوں۔ اور زبان و ادب کے اصول وضوابط کی رعایت کرتے ہوئے خوبصورت اور فصیح وبلیغ جملوں کا استعمال کرنے کی قدرت رکھتے ہوں ، ان کی ہر بات مدلل اور دلنشین ہو اور زبان میں لکنت اور تتلاہٹ نہ ہو۔
معلوم رہے کہ استاذ کو جس قدر زبان وبیان پر قدرت ہو گی اور وہ اپنی باتوں کو جس قدر مختلف انداز، متعدد اسالیب اور آسان پیرائے میں سمجھانے کی صلاحیت رکھے گا اسی قدر وہ تعلیم و تر بیت کے میدان میں کامیاب ہوگا۔اسی واسطے انبیاء علیہم السلام کو فصاحت وبلاغت، اور زبان وبیان کی بڑی اعلی صلاحیتوں سے نوازا گیا تھا،ان کی زبان بڑی ادبی اور معیاری ہوتی تھی، بڑے ادباء اور فصحاء وبلغاء اس میں کوئی عیب نہیں نکال سکتے تھے، وہ جس وقت قوم سے خطاب کرتے ایک سماں بندھ جاتا ، لوگوں سے گفتگو فرماتے تو ان کا اسلوب اور بیان اتنا موثر ہو تا کہ لگتا مخاطبین کے دل و دماغ پر انھوں نے جادو کر دیا ہے، اسی واسطے ان کے مخالفین لوگوں کو ان سے ملنے اور گفتگو کر نے سے منع کرتے تھے اور اس کے لئے بھر پور جدوجہد کرتے تھے ،حضرت موسی علىہ السلام کی زبان میں بعض اسرائیلی روایتوں کے بموجب بچپن میں منھ میں انگارہ رکھ لینے کی وجہ سے لکنت ہوگئی تھی اور ان کے بھائی حضرت ہارون علىہ ان سے زیادہ فصیح اللسان تھے ، اس لئے انھوں نے اپنی مدد كے لئے اللہ تعالیٰ سے اپنے بھائی کو نبوت عطا کرنے کی دعا کرتے ہوئے عرض کیا: وَأَخِیْ هَارُونُ هُوَ أَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَاناً فَأَرْسِلْهُ مَعِیَ رِدْءاً يُصَدِّقُنِیْ إِنِّیْ أَخَافُ أَن يُکَذِّبُونِ (القصص: ٣٤) اور میرابھائی ہارون(علىہ السلام)مجھ سے زیادہ فصیح زبان والا ہے، پس تو اسے بھی میرا مددگار بناکر بھیج دے کہ وہ میری تصدیق کرے، مجھے ڈر ہے کہ وہ سب مجھے جھٹلا دیں گے۔ پھر اللہ نے ان کی دعا قبول کرتے ہوئے فرمایا: قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِأَخِيْکَ وَنَجْعَلُ لَکُمَا سُلْطَاناً فَلَا يَصِلُونَ إِلَيْْکُمَا بِآيَاتِنَا أَنتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَکُمَا الْغَالِبُونَ (القصص: ٣٥) ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرا بازو مضبوط کردیں گے اور تم دونوں کو غلبہ دیں گے ،چنانچہ فرعونی تم تک پہونچ ہی نہیں سکیں گے، ہماری نشانیوں کی وجہ سے تم اور تمہاری تابعداری کرنے والے ہی غالب ر ہیں گے۔
بہر حال تعلیم وتربیت اور دعوت وتبلیغ کے میدان میں زبان وبیان پر قدرت اور فصاحت وبلاغت کی بڑی اہمیت ہے، اس واسطے اساتذہ کرام کو اس کے لئے بھی محنت کرنا چاہئے اور ان کے اندر یہ صلاحیت بھی وافر مقدار میں ہونا چاہئے۔
(۱۰)حالات حاضرہ اور جدید مسائل سے واقف ہونا:
اساتذہ کرام کو حالات حاضرہ، عصر حاضر کے جدید مسائل اور نئے سماجی ومعاشرتی امور سے بھی واقف ہونا چاہئے، تاکہ وہ نصوص کتاب وسنت اور ادلۂ شرعیہ کی روشنی میں ان پر گفتگو اور تبصرہ کرسکیں اور اپنے دروس ومحاضرات اور خطبات وغیرہ میں موقع و محل کی مناسبت سے انکی تاریخ ، پس منظر،اسباب وعلل،ان میں حصہ اور دلچسپی لینے والے عناصر اور ان کے اغراض ومقاصد،صحیح حقائق،تدلیسات وتلبیسات، ان کا صحیح حل اور طریقِ کار وغیرہ کے بارے میں تفصیلی روشنی ڈال سکیں۔ اور بہت سے عالمی ،علمی، سیاسی، سماجی اور تعلیمی مسائل کے سلسلے میں جو طلبہ کے ذہنوں میں اشکالات اور الجھنیں رہتی ہیں وہ دور کر سکیں، تاکہ وہ قوم وملت کی قیادت وسیادت،معاشرے کی خدمت ا ور ان کے مسائل کا حل اطمینان قلب اور انشراح صدر کے ساتھ پیش کر سکیں۔اس کی خاطر انہیں اخبارات وجرائد اور دیگر وسائل اعلام ونشر واشاعت سے استفادہ کرنا چاہئے۔بڑے بڑے علماء ومفکرین کے افکار وخیالات کا مطالعہ کرنا چاہئے اور کتاب وسنت کے نصوص پر غور کر کے صحیح رائے اورفکر تک پہونچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور انہیں کنویں کا میڈک بن کر ہر گز نہیں رہنا چاہئے۔بلکہ انہیں مقامی، ملکی اور عالمی حالات سے پوری واقفیت رہنی چاہئے۔تبھی وہ تعلیم وتربیت کے حقیقی مقاصد کو حاصل کر سکتے ہیں۔ اور ان کی تعلیم وتربیت سے فقہاء، محدثین،مجددین، مفکرین،مصلحین اور قائدین پیدا ہو سکتے ہیں۔ دنیا میں کوئی صالح انقلاب آسکتا ہے۔اورانسانیت کی صحیح تعمیر اور قوم وملت کی اصلاح وبیداری کا کام ہوسکتا ہے، ورنہ نہیں۔
(۱۱) بچوں کی نفسیات وغیرہ سے واقف ہونا:
استاد کو بچوں کی نفسیات، ان کی ذہنی وجسمانی صلاحیت، ان کے گھر کے حالات وماحول اور مزاج وغیرہ سے اچھی طرح واقف ہونا چاہئے، اسے معاملہ شناس، زیرک اور ہو شیار ہونا چاہئے تاکہ ان سب امور کا اعتبار کرتے ہوئے تعلیمی عمل کو انجام دے اور کامیابی اس کی قدم بوسی کرے۔ورنہ نتیجہ اس کے برعکس ہوگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے :’’ نحنُ معشرَ الأنبياءِ اُمِرنَا انْ نُنَزِّلَ النَّاسَ مَنَازِلَهُم ونُکَلِّمَهُمْ عَلٰی قَدْرِعُقُوْلِهِمْ ‘‘۔(رواہ ابوداود)
ہم انبیاء کی جماعت کو حکم دیا گیا کہ لوگوں کے مراتب ودرجات کا خیال رکھیں اور ان سے ان کی عقلی صلاحیت کے مطابق گفتگو کریں۔
چنانچہ علم کی قدروقیمت سے نا آشنا،تعلیم اور مدرسے سے نفرت رکھنے والے طلباء کے سامنے علمی موتیوں کو بکھیرنے سے قبل انھیں علم کی قدروقیمت اور اہمیت وفضلیت بتانی چاہئے اور جب وہ اس کے قائل اور قدرداں ہو جائیں اور ان کے اندر حصول علم کا شوق ہوجائے تب ان کے سامنے علمی باتیں پیش کرنی چاہئے ،ورنہ اس کی مثال ایسے ہو گی جیسے کوئی خنزیروں کی گردنوں میں سونے کا ہار پہنائے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جانب منسوب ایک قول ہے:’’لَا تَطْرَحِ الْلُؤلُؤَ اِلی الْخِنْزِيْرِ ،فَاِنَّ الْخِنْزِيْرَ لاَ يَصْنَعُ بِالْلُؤ لُؤِ شَيْئاً، وَلَا تُعْطِي الْحِکْمَةَ لِمَنْ لاَ يُرِيْدُهَا فَاِنَّ الْحِکْمَةَ خَيْرٌ مِّنَ الْلُؤ لُوؤ، وَمَنْ لَا يُرِيْدُهَا شَرٌّ مِّنَ الْخِنْزِيْرِ‘‘  خنزیر کو موتی نہ دو، کیونکہ خنزیر موتی لے  کر کچھ نہیں کرے گا ،اور حکمت اس کو نہ دو جو اس کا خواہش مند نہ ہو کیونکہ حکمت موتی سے بہتر ہے ،اور جو اسے نہ چاہے وہ سور سے بھی بدتر ہے۔(جامع بیان العلم وفضلہ: ص۱۳۲)
اساتذہ کو چاہئے کہ تعلیم وتربیت میں ہمیشہ طلبہ وطالبات کی نفسیات کا خیال کریں۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ لحاظ فرمایا کرتے تھے۔ایک مرتبہ ایک نوجوان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:یا رسول اللہ! مجھے زنا کی اجازت دیجئے۔ یہ سن کر قریب تھا کہ صحابہ کرام رضى الله عنہ  اس پر ٹوٹ پڑتے۔مگر آپ نے فرمایا:اسے چھوڑ دو اور میرے قریب آنے دو۔جب وہ آپ کے قریب آگیا تو آپ نے فرمایا:’’أتُحِبُّهُ لأمِّکَ‘‘کیا تم یہ بری حرکت اپنی ماں كے لئے پسند کرو گے؟اس نے جواب دیا:اللہ کی قسم۔نہیں، اورکوئی بھی اپنی ماں کے ساتھ زنا کو کیسے پسند کرسکتا ہے؟پھر آپ نے اس کی لڑکی،بہن،پھوپھی اور خالہ کی مثال دے کر پوچھا کہ ان میں سے کسی كے لئے تم زنا کو پسند کرتے ہو؟اس نے سب کا جواب نفی میں دیا۔پھر آپ نے فرمایا:اسی طرح کوئی شخص بھی پسند نہیں کرے گا کہ تم اس کی ماں، بیٹی،بہن، پھوپھی یا خالہ کے ساتھ زنا کرو۔اس سے زنا کی قباحت اس کے ذہن میں بیٹھ گئی اور آپ کی باتوں پر مطمئن اور زنا کی حرمت کا قائل ہوگیا۔پھر آپ نے اس کے جسم پر اپنا دست مبارک پھیرا اور اس کے حق میں یہ دعا کی:’’اللّٰهُمَّ اغْفِرْ ذَنْبَهُ، وَطَهِّرْ قَلْبَهُ ،وَحَصِّنْ فَرْجَهُ‘‘(رواہ الطبرانی)اے اللہ اس کے گناہ معاف فرمادے،اس کا دل پاک کردے اور اس کی شرمگاہ کی حفاظت فرما۔
اس حدیث کے راوی امامہ باہلی رضى اللہ عنہ  کا بیان ہے کہ آپ کی اس دعا کے بعد وہ نوجوان کبھی کسی برائی کی جانب مائل نہیں ہوا۔
ایک مرتبہ بنی فزارہ کے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:یا رسول للہ!میری بیوی نے ایک کالے رنگ کا بچہ جنا ہے،حالانکہ میں گورا ہوں اور میری بیوی بھی گوری ہے۔آپ نے فرمایا:کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟اس نے جواب دیا:ہاں یا رسول اللہ! آپ نے پوچھا :ان کا رنگ کیسا ہے؟جواب دیا:ان کا رنگ سرخ ہے،آپ نے فرمایا کیا تمہارے اونٹوں میں کوئی خاکستری رنگ کا اونٹ بھی ہے؟جواب دیا:ہاں،پھر آپ نے فرمایا: یہ رنگ کہاں سے پیدا ہوگیا؟ اس نے جواب دیا: اس کی گذشتہ پشت میں کوئی خاکستری رنگ کا اونٹ رہا ہوگا، جس کا اثر اس پر آگیا ہے۔آپ نے فرمایا:اسی طرح تمہاری یا تمہاری بیوی کی گذشتہ پشت میں کوئی شخص کالے رنگ کا رہا ہوگا جس کا اثر تمہارے نو مولود بچے پر آگیا ہے۔(صحيح مسلم : 4/ 211)
یہ سن کر وہ شخص مطمئن ہوگیا اور دربار رسالت سے اطمینان ویقین کی دولت لے کر واپس گیا۔بہر حال اساتذہ کو اپنے طلبہ اور مخاطبین کی نفسیات،مزاج ،ماحول اور ذہنی وعقلی صلاحیت وغیرہ کا بھر پور علم ہونا چاہئے۔اور تعلیم وتدریس میں برابر اس کا لحاظ رکھنا چاہئے۔
(۱۲)مز من امراض اور بڑے جسمانی عیوب سے خالی ہونا:
تعلیم وتربیت کے عمل کو صحیح طور پر انجام دینے كے لئے ضروری ہے کہ استاذ کسی مزمن اور بڑی بیماری میں مبتلا نہ ہو۔کیونکہ اگر استاذ کسی مزمن مرض میں مبتلا ہو تو وہ تعلیم وتربیت جیسے اہم اور مشکل عمل کو صحیح طور سے انجام نہیں دے سکتا اور اس کے لئے جتنی محنت کرنی چاہئے وہ محنت نہیں کرسکتا۔نیز اپنی مستقل بیماری کی وجہ سے وہ بکثرت غیر حاضری کرے گا جس کی وجہ سے بھی تعلیم کا نقصان ہوگا۔
اسی طرح اگر کسی استاذ کے اندر کوئی بڑا جسمانی عیب یا  ملفت نظر چیز پائی جاتی ہے تو اس کا بھی تعلیم پر برا اثر پڑے گا۔جیسے کوئی شخص بہت ناٹا یا بونا ہے تو اس كے لئے تعلیم وتربیت کے عمل میں خاصی پریشانی ہوگی اور شریر ومنچلے لڑکے اس کو دیکھ کر ہنسیں گے،مذاق اڑائیں گے اور پیٹھ پیچھے برے القاب سے پکاریں گے۔اور کلاس پر کنٹرول کرنا اور صحیح طور سے پڑھانا اس كے لئے مشکل ہو جائے گا۔کوئی ٹیبل پر بیٹھنے ،کوئی کرسی پر کھڑا ہونے كے لئے کہے گا ،کوئی اس کی کتاب لینے اور کوئی خود اسے گود میں اٹھانے کی کوشش کرے گا۔اس طرح اس سے تعلیم وتربیت کا عمل صحیح طور پر نہیں ہو پا ئے گا۔
اسی طرح اگر کوئی بہت موٹا یا بہت لمبا تڑنگا ہے تو وہ بھی لوگوں كے لئے ملفت نظر ہوگا اور طلبہ درس کو توجہ سے سننے کے بجائے اس کے مٹاپے اور قد وقامت پر غور وفکر اور تبصرہ کریں گے۔ اور شریر لڑکے ’’موٹو ‘‘اور’’ لمبو ‘‘کہہ کر تنا بز بالا لقاب کے گناہ کاارتکاب کریں گے۔
اسی طرح اگر کوئی ملفت نظر حد تک لنگڑا یا لولا ہے تو اس کو بھی تعلیم میں پریشانی ہوگی۔کم سننے اور کم دیکھنے والے اور بہت زیادہ ہکلانے والے استاذ كے لئے بھی دشواریاں ہوں گی۔اور بالکل بہرے یا گونگے شخص كے لئے تو پڑھانا ناممکن ہے۔ نابینا شخص كے لئے بھی تدریس کا عمل پریشان کن ہوتا ہے۔البتہ اگر مہذب،باوقار اور اہل علم کی دل سے عزت وقدر کرنے والے بڑی جماعت کے طلبہ ہوں تو باصلاحیت اساتذہ سے بعض جسمانی عیوب کے باوجود استفادہ کرسکتے ہیں۔اور ایسی صورت میں انہیں ایک معلم اور مربی کی حیثیت سے رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ورنہ عام حالات میں اصحاب مدارس وجامعات کو اس پر بڑی سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور ایسے علماء کرام اور با صلاحیت حضرات سے دوسرے طریقوں سے استفادہ کرنا چاہئے۔بہر حال ان میں سے ا کثر صفات از قبیل کمالیات ہیں ،جن کا حتی الامکان لحاظ کرنا چاہئے۔ لیکن کچھ استثنائی اور مخصوص صورتوں میں انہیں نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔

باب ثالث
آداب تعلیم وتربیت
تعلیم وتربیت کی اہمیت وفضیلت اور کامیاب معلم کے اوصاف پر کچھ روشنی ڈالنے کے بعدمناسب معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم وتربیت کے آداب و طرق پر کچھ روشنی ڈالی جائے، ممکن ہے کہ ہمارے اساتذۂ کرام اور خاص طور سے نئے فارغین وفارغات اس سے استفادہ کریں اور ان کا تدریس وتعلیم کا عمل کامیاب اور بارآور ثابت ہو،اور ترقی ان کی قدم بوسی کرے۔
(۱)کلاس میں آنے سے قبل درس کی تیاری او رمطالعہ کرنا :
اساتذہ اور معلّمات کوکلاس میں تدریس كے لئے جانے سے قبل جو سبق پڑھانا ہے اس كے لئے اچھی طرح تیاری اورمطالعہ کرنا چاہئے، اس کی عبارت کو اچھی طرح حل کرنا اور سمجھنا چاہئے ۔ اس کے مسائل اور مضامین کو ذہن نشین کرنا چاہئے ۔مشکل الفاظ کے معانی ، واحد، جمع، جملوں میں استعمال وغیرہ کو جاننا چاہئے ، اورکسی لفظ اور عبارت کو حتی الامکان غیر مفہوم نہیں رہنے دینا چاہئے ، کسی درس کو بغیر سمجھے اور بغیر معرفت و بصیرت کے پڑھانا غلط ہے ۔جیسا کہ آیت کریمہ: قُلْ َهذِهِ سَبِيْلِیْ أَدْعُو إِلَی اللّهِ عَلَی بَصِيْرَةٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ  (يوسف: ١٠٨) اس کی واضح د لیل ہے۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ مَنْ أُفْتِىَ بِغَيْرِ عِلْمٍ كَانَ إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ ‘‘ (رواہ ابو داود والدارمی، و قال الألبانی: سندہ حسن .مشکاۃ:۱؍۸۱)جس نے بغیر علم کے کوئی فتویٰ دیا تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہوگا۔
مطالعہ سے جہاں علم وبصیرت حاصل ہوتی ہے وہیں استاد جب مطالعہ اور سبق کی تیاری پہلے سے کر کے کلاس میں پڑھانے جاتا ہے تو اسے اپنے اوپر مکمل اعتماد ہو تا ہے، اور وہ پورے اطمینا ن اور انشراح صدر کے ساتھ پڑھا تا ہے ۔اور اگر پہلے سے مطالعہ اور تیاری نہیں کی ہے تو اسے اطمینان نہیں ہوتا۔اورہر وقت اسے خوف لگا رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی عبارت حل نہ کرسکوں،کوئی مسئلہ طلبہ پوچھ لیں اور میں نہ بتا سکوں ،اس طرح وہ پورے درس میں پریشان رہتا ہے ۔ اور اگر کبھی کوئی مسئلہ صحیح طریقہ سے نہیں جانتا اوراٹکل سے بتا دیا اور غلطی ہو گئی تو گناہ کے ساتھ اس کا انکشاف ہو نے پر اس کے علمی وقار کو بھی نقصان پہنچے گا ۔ اور طلبہ کا اس پر اعتماد ختم ہو جائے گا۔
پرانے اور تجربہ کار اساتذہ کو بھی مطالعہ اور درس کی تیاری کا اہتمام کرنا چاہئے،اور کبھی اس خوش فہمی میں مطالعہ ترک نہیں کرنا چاہئے کہ یہ مضمون یا کتاب ہم بہت دنوں سے پڑھاتے ہیں اور ساری باتیں ہمیں یاد ہیں اور اب مطالعہ کی ضرورت نہیں، کیونکہ کبھی پرانے اساتذہ بھی مطالعہ نہ کرنے کی صورت میں بعض عبارتوں میں پھنس جاتے ہیں اور اسی طرح بعض مسائل بروقت یاد نہیں آتے جس سے انہیں بڑی شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے، اس واسطے تمام اساتذہ ومعلّمات کودرس کی تیا ر ی اور مطالعہ کا اہتمام کرنا چاہئے۔
مصادر ومراجع اور اپنے مضامین كے لئے معاون چیزوں کے حاصل کرنے کا اہتمام کرنا:
اس موقع پر اساتذہ ومعلّمات سے یہ گذارش کرنا غیر مناسب نہ ہو گا کہ انھیں اپنے مضامین سے متعلق مصادر و مراجع اور معاون چیزوں کو ضرور رکھنا چاہئے۔اگر وہ ان مصادر ومراجع کو خرید سکتے ہوں تو بہتر ہے، ورنہ مدرسہ کے مکتبہ سے حاصل کرلیں، ہر مدرس کی کوشش ہونی چاہئے کہ جن کتابوں کی عموماً اسے ضرورت پڑتی ہے ،جیسے لغت کی کتابیں ،نقشے ، شرحیں وغیرہ انھیں خرید لے، تاکہ جہاں بھی رہے ان سے استفادہ کرے اور کسی سے اسے مانگنا نہ پڑے۔
 دنیا کے تمام پیشے کے لوگ اپنے اوزار اورضروری سامان خو دخرید کر رکھتے ہیں، چنانچہ بڑھئی کے پاس اس کے اوزار، لوہار کے پاس اس کے اوزار،راجگیرکے پاس اس کے اوزار، اسی طرح تمام کام کرنے والوں کے پاس عموماً ان کے اوزار رہتے ہیں ،اسی طرح اساتذہ و معلّمات کو بھی اپنے پیشۂ تدریس سے متعلق ضروری سامان اور کتابیں وغیرہ رکھنا چاہئے، اس سے انھیں کافی سہولت ہو گی اور پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑ ے گا ۔
کبھی ایک مدرس کو ایسے مدرسہ میں پڑھانا پڑتا ہے جہاں خاطر خواہ اور حسب ضرورت مراجع اور کتابیں نہیں ہوتیں، یا بعض کتابوں کے صرف ایک دو نسخے ہوتے ہیں اور دوسرے اساتذہ پہلے نکلوالیتے ہیں تواس کو پریشانی ہوتی ہے ۔اوراگر اس کی ذاتی کتابیں ہوں تو وہ گھر،مدرسہ اور سفر وحضر ہر جگہ ان سے استفادہ کرسکتا ہے۔اور مختلف مصادر ومراجع کے مطالعہ سے حاصل ہونے والی معلومات اور ان کے حوالہ جات کو بھی وہ ان کے حاشیہ میں درج کرسکتا ہے، جبکہ مدرسہ وغیرہ کی کتابوں میں یہ ساری سہولتیں نہیں ہوتیں، اور اگر کچھ اہم معلومات نوٹ بھی کرلیں تو دوسرے سال وہ کتاب کسی دوسرے کے پاس چلی جاتی ہے اور ساری محنت اکارت ہو جاتی ہے۔
بہر حال اساتذہ کو اپنے مضامین سے متعلق معاون کتابیں اور اہم مصادر ومراجع کو خریدنے اور ا پنے پاس رکھنے کا اہتمام کرنا چاہئے ،اس سے انہیں تعلیم وتربیت میں بڑی مدد ملے گی اور کافی سہولت ہوگی۔
مطالعہ کا طریقہ:
مطالعہ شروع کرنے سے قبل معاون کتابیں اور قلم کاغذ وغیرہ اپنے پاس رکھ لینا چاہئے ، تاکہ ضروری باتیں مطالعہ کے وقت نوٹ کر سکیں اور مطلوبہ معلومات کم سے کم وقت میں حاصل کر سکیں ۔
ضروری معلومات اپنی ذاتی کتاب کے حاشیہ پر یا مستقل کاپی اور نوٹ بک میں مختصراً لکھ لینا چاہئے ۔ مفصل اور طویل مسائل کے مصادر اور حوالہ جات مع جلد اور صفحہ نوٹ کرلینا چاہئے،تاکہ دوبارہ مراجعہ اورمطالعہ میں سہولت ہو ،مطالعہ کے وقت ایسی جگہ نہیں بیٹھنا چاہئے جہاں شور و غل یا کوئی اورڈسٹرب کرنے والی چیزہو ،تاکہ ذہن باربارمنتشرنہ ہو،چنانچہ کھڑکی کے پاس یا ایسی جگہ جہاں لوگ بیٹھ کر باتیں اور گپ شپ کرتے ہوں مطالعہ کرنا قطعاً مناسب نہیں ۔مطالعہ نشاط کی حالت میں اورمناسب وقت پر کریں،سخت تھکے ہونے یاپریشانی یانیند اور ذہنی انتشار کی حالت میں مطالعہ کرنا بے کار ہے ۔ اسی طرح مناسب روشنی اور مناسب وقت کابھی لحاظ کرنا چاہئے، اندھیرے میں یا سخت دھوپ اور گرمی میں یا سخت سردی میں مطالعہ کرنا ٹھیک نہیں ۔
مطالعہ کے وقت جونئی باتیں ذہن میں آئیں انہیں بر وقت لکھ لینا چاہئے، تاکہ نسیان کی وجہ سے بعد میں لکھنے میں پریشانی نہ ہو۔
جو باتیں گھر پر مطالعہ سے حل نہ کر سکیں اور اس کے متعلق کوئی کتاب مدرسے کی لائبریری میں ہو تو درس سے پہلے ہی وہاں جا کر مطالعہ کر لینا چاہئے۔
دوسرے اساتذہ سے استفادہ کرنا:
ذاتی مطالعہ اور غور و فکر سے اگرکوئی مسئلہ یا عبارت حل نہ ہو سکے تو با صلاحیت اساتذہ اور دوسرے علماء کرام سے پوچھ لینا چاہئے ۔اس سلسلہ میں جس سے بھی تعاون مل سکے اور مسئلہ حل ہو سکے اس سے پوچھ لینا ہرگز معیوب نہیں،حتی کہ چھوٹے اساتذہ اور تلامذہ سے بھی بعض مسائل کے پوچھ لینے میں کوئی حرج نہیں ۔ فرمان الٰہی :فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّکْرِ إِن کُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (النحل: ٤٣) اگر تمہیں علم نہ ہو تواہل علم سے پوچھ لو ۔ میں عموم ہے اور محدثین کرام کے یہاں ’’رواية الاکابر عن الاصاغر‘‘ معلوم و معروف ہے۔
ابو بکر عبد اللہ بن زبیر الحمیدی جوامام شافعی رحمہ الله کے شاگرد ہیں فرماتے ہیں کہ میں مکہ سے مصر تک امام شافعی رحمہ الله کے ساتھ رہا ،میں ان سے مسائل کے سلسلہ میں استفادہ کرتا تھا اورو ہ مجھ سے حدیث کے سلسلہ میں استفادہ کرتے تھے۔ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے امام شافعی رحمہ الله نے کہا : تم لوگ حدیث کے بارے میں مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہو ،اس واسطے جب تمہارے نزدیک کوئی حدیث صحیح ہو جائے تو ہمیں بتادو تاکہ ہم اس کو لے سکیں ۔اور صحابہ کرام  رضى الله عنہم کی ایک جماعت کا تابعین سے روایت کرنا ثابت ہے اور ان سب سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت اُبی رضى اللہ عنہ کے سامنے قرآن پڑھنا اور یہ فرمانا کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تم پر پڑھوں ۔ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ فاضل کو مفضول سے علمی استفادہ میں ہتک نہیں محسوس کرنی چاہئے۔ (تذکر ۃ السامع والمتکلم فی ادب العالم والمتعلّم:ص۲۹)
کوئی مسئلہ معلوم نہ ہونے کی صورت میں“ لا أدری” کہنا:
اگر کوئی مسئلہ ذاتی مطالعہ اور دوسروں سے پوچھنے کے باوجود بر وقت حل نہ ہو سکے تو درس کے وقت طلبہ سے صراحت کے ساتھ کہدیں ’’لا ادری‘‘ یعنی مجھے بروقت یہ مسئلہ معلوم نہیں، اوربعد میں تحقیق اور مطالعہ کرکے بتائیں گے۔
اگر کسی مسئلہ میں صحیح علم نہ ہو تو صرف اپنی ناک بچانے کے لئے غلط سلط یا اندازے سے کوئی بات نہیں بتانی چاہئے، بلکہ خندہ پیشانی سے عدم واقفیت کا اعتراف کرنا چاہئے اور پھر معلومات حاصل کر کے بعد میں بتا دینا چاہئے ۔اس سے استاد کا علمی وقار قائم اور طلبہ کااس پر اعتماد برقرار رہتاہے اور وہ بلا علم بات کرنے اور غلط بیانی کے اس گناہ اوروبال سے بھی محفوظ ر ہتا ہے جس کی جانب حدیث ’’ مَنْ أُفْتِىَ بِغَيْرِ عِلْمٍ كَانَ إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ ‘‘ میں اشارہ کیا گیا ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود متعد دسوالات کے جوابات میں لا علمی کا اظہار فرمایا اور جب ان کے بارے میں وحی نازل ہوئی تب بتايا ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودرضى اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ يَا أَيُّهَا النَّاسُ ، مَنْ سُئِلَ مِنْكُمْ عَنْ عِلْمٍ هُوَ عِنْدَهُ ، فَلْيَقُلْ بِهِ ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ ، فَلْيَقُلْ : اللَّهُ أَعْلَمُ ، فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ تَقُولَ لِمَا لاَ تَعْلَمُ : اللَّهُ أَعْلَمُ ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : {قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ} ‘‘ (مسند أحمد 1/ 431 )
لوگو !جس سے کسی علمی مسئلہ کے بارے میں پوچھا جائے تو اگر اسے معلوم ہو تو چاہئے کہ بتائے ،اور جس کے پاس اس کے بارے میں علم نہ ہو وہ ’’اللّٰہُ اَعْلَمُ ‘‘کہہ دے، اس لئے کہ یہ بھی علم ہے کہ جس کے بارے میں آدمی نہ جا نتا ہو’’اللّٰہُ اَعْلَمُ‘‘ کہہ دے ، اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے فرمایا : ’’آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس پر اجرت نہیں طلب کرتا ہوں،اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں۔
حضرت ابراہیم  بن طہمان رحمہ اللہ کو لوگوں کو مسائل بتانے پربیت المال سے ماہانہ وظیفہ ملتا تھا ، ایک دن ایک مسئلہ کے بارے میں ان سے سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا : ’’لاأدری‘‘یہ مسئلہ مجھے نہیں معلوم ، بعض لوگوں نے کہا :ہر ماہ اتنی اتنی تنخواہ لیتے ہو اور ایک مسئلہ اچھی طرح نہیں جانتے ؟ انھوں نے برجستہ کہا:’’ اِنَّمَا آخُذُ عَلٰی مَا اُحْسِنُ ،وَلَوْ أخَذْتُ عَلٰی مَالَااُحْسِنُ لَفَنِیَ بَيْتُ الْمَالِ ولَا يَفْنیٰ مَالَا اُحْسِنُ‘‘ میں جو اچھی طرح جانتا اور بتاتا ہوں اسی پر تنخواہ لیتا ہوں، اگر میں ان باتوں پر پیسے لینے لگوں جن کا مجھے ٹھیک سے علم نہیں توبیت المال کا خزانہ ختم ہوجائے گااور میری وہ باتیں ختم نہ ہوں گی جنھیں میں اچھی طرح نہیں جانتا۔
خلیفہ کو ان کا یہ جواب بہت پسند آیا اور اس نے انھیں انعام اور خلعَت سے نوازا اور تنخواہ میں بھی اضافہ کردیا۔(العلم و الدین:ص۲۴،۲۵)
اورابو عمر الزاہد فرماتے ہیں کہ میں ابو العباس ثعلب کی مجلس میں تھا ،ایک سائل نے ان سے کسی مسئلہ کے بارے میں پوچھا ، انھوں نے کہا ’’لاادری‘‘ یعنی یہ مسئلہ مجھے معلوم نہیں ۔اس نے کہا:آپ’’لاادری ‘‘ کہتے ہیں حالانکہ لوگ آپ کے پاس اونٹوں پر کجاوے کَس کر اور ہرہر شہرسے سفر کر کے آتے ہیں؟ابو العباس ثعلب نے اس سے کہا:اگر تیری ماں کے پاس میرے ’’ لا ادری‘‘ کے برابر اونٹوں کی مینگنیاں ہو جائیں تو وہ مال دار ہو جائے گی۔(مصدر سابق :ص۲۴)
غرضیکہ اساتذہ کومطالعہ اور تیاری کر کے کلاس میں آنا چاہئے اور مطالعہ وتحقیق کے بعد ’’علی وجہ البصیرۃ‘‘پڑھانا چاہئے اورجو چیزیں معلوم نہ ہوں بلا جھجک ان کے بارے میں اپنی لا علمی کا اظہار کر دینا اور بعد میں تحقیق و مطالعہ کر کے بتانا چا ہئے ۔
(۲)کلاس میں استاذ کی ہیئت میں آنا:
اساتذہ کو علمی تیاری کے ساتھ ذ ہنی اور جسمانی طور بھی پر تیار ہو کر کلاس میں آنا چاہئے۔ چنانچہ پہلے نہا دھو کر، اچھے کپڑے پہن کر اورخوشبو لگا کر تروتازہ ہو جائیں پھر کلاس میں آکر پورے نشاط کے ساتھ درس دیں ۔امام مالک  رحمہ اللہ باقاعدہ غسل کرکے عمامہ اور اچھے کپڑے زیب تن فرما کر اور خوشبو لگا کر درس میں آتے تھے ۔(انظر رحلۃ الامام الشافعی : ص ۲۴)
بعض اساتذہ میلے کچیلے کپڑے میں اور اچھی طرح ہاتھ منھ دھوئے بغیر کلاس میں آجاتے ہیں ،بعض اساتذہ کے کپڑے سکڑے ہوئے اور داڑھی اور سر کے بال پراگندہ اور مونچھوں کے بال بے ہنگم ہو تے ہیں اور اسی طرح وہ کلاس میں پڑھانے آجاتے ہیں ۔ان کا یہ عمل درست نہیں ۔ کیونکہ ایک تو وہ اس سے اپنے طلبہ کے سامنے کوئی اچھا نمونہ نہیں پیش کرتے،بلکہ وہ نا دانستہ طور پر انھیں بھی لا ابالی پن کی تعلیم دیتے ہیں۔
دوسرے یہ اسلام کی نظافت و طہارت کے آداب و احکام اور اہل علم کی شان کے خلاف ہے ۔
تیسرے اس کی وجہ سے کسل مندی اور سستی ہوتی ہے ،اور ذہنی اور جسمانی نشاط نہیں ہو تا۔ اور ظاہر ہے کہ ذہنی اور جسمانی نشاط کے بغیر استاذ تعلیم و تفہیم کا پورا حق ادا نہیں کر سکتا۔
(۳) کلاس میں اول وقت میں پہنچنااوروقت کی پابندی کرنا:
اساتذہ کو چاہئے کہ وہ وقت کی پابندی کریں ،اور اپنی گھنٹی شروع ہو تے ہی کلاس میں پہونچ جائیں ۔ اگر اساتذہ کلاس میں تاخیر سے آئیں گے تو طلبہ بھی آنے میں تاخیر کریں گے ،بلکہ ان سے زیادہ ہی تاخیر سے آئیں گے ۔نتیجہ یہ ہوگا کہ اسکول اور کلاس میں بدنظمی پیدا ہو گی ،درس کا حق ادا نہیں ہو گا اور مقررہ نصاب بھی مکمل نہیں ہو پائے گا۔کیونکہ اگر مدرس پانچ منٹ بھی لیٹ کر کے آئے گا تو کم از کم پانچ چھ منٹ طلبہ کی حاضری اور کلاس کا جائزہ لینے میں لگ جائیں گے، اس کے بعد عبارت خوانی ہوگی، اس کے بعد درس شروع ہو گا ،اس طرح لگ بھگ دس بارہ منٹ چلے جائیں گے اور بمشکل تمام ۲۵سے۳۰منٹ درس کے لئے ملیں گے جن میں اطمینان سے سبق پڑھاکر کورس مکمل کرنا مشکل ہوگا۔
اسی طرح اساتذہ کو گھنٹی ختم ہونے کے بعد جلد از جلد درس ختم کردینا چاہئے، بعض اساتذہ زبر دستی دوسرے اساتذہ کی گھنٹیوں میں اپنی کتابیں پڑھاتے رہتے ہیں، جس سے ایک تو ان اساتذہ کو باہر کھڑے ہوکر انتظار کرنا پڑتا ہے اور تکلیف ہوتی ہے ۔دوسرے ان کی حق تلفی ہوتی ہے اور ان کا کورس ختم نہیں ہوتا ۔تیسرے بسا اوقات اس کی وجہ سے اساتذہ میں جھگڑے ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کی چغلخوری اور شکایت کرتے ہیں اور بدنام و گنہگار ہوتے ہیں ،اس واسطے اساتذہ کو اپنے وقت کی پابندی کا بہت خیال رکھنا چاہئے۔
(۴)کلاس میں داخل ہوتے وقت سلام کرنا:
اساتذہ جب کلاس میں جائیں تو داخل ہو تے وقت طلبہ سے سلام کریں ۔ بعض اسکولوں میں دیکھنے میں آتا ہے کہ استاذ جب کلاس میں داخل ہو تا ہے تو وہ سلام نہیں کرتا، بلکہ طلبہ کو کھڑے ہو کر سلام کرنے کے لئے کہتا ہے اور اگر کوئی طالب علم کھڑا نہ ہو تو اسے سزادیتا ہے ۔یہ طریقہ اسلامی اصول کے خلاف ہے ۔اسلامی طریقہ یہ ہے کہ آنے والا بیٹھے ہوئے لوگوں کو سلام کرے ،ارشاد باری ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتاً غَيْْرَ بُيُوتِکُمْ حَتَّی تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَی أَهْلِهَا  (النور: ٢٧)اے مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں نہ داخل ہو ا کروجب تک کہ گھر والوں سے اجازت اور ان کی رضا نہ لے لو اور ان سے سلام نہ کر لو۔
اورحضرت انس رضى اللہ عنہ ایک مرتبہ بچوں کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا اور فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔( صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 8/ 68 , صحيح مسلم : 7/ 6)
اسی طرح کسی مجلس میں آنے پر وہاں کے لوگوں کو اپنی تعظیم کے لئے کھڑا کرنا بھی اسلامی طریقہ نہیں ،بلکہ یہ عجمیوں کا شعار اور طریقہ ہے ۔ اس سے بھی اجتناب کر نا چاہئے ۔ حضرت انس بن مالک رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی شخص معزز اور محبوب نہیں تھا ۔لیکن ان کی عادت تھی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریف لاتے ہوئے دیکھتے تو تعظیماً کھڑے نہ ہو تے، اس لئے کہ و ہ جا نتے تھے کہ آپ اسے ناپسند فرماتے ہیں ۔ (رواہ احمد و التر مذی ،وھو حدیث حسن)
              اور حضرت ابو امامہ رضى اللہ عنہسے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ میں چھڑی لئے ہوئے ہمارے مجمع میں تشریف لائے ،ہم آپ کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے تو آپ ناراض ہوئے اور فرمایا : ’’ ’’ لاَ تَقُومُوا كَمَا تَقُومُ الأَعَاجِمُ يُعَظِّمُ بَعْضُهَا بَعْضًا ‘‘ (انظر مسند احمد:۵؍۲۵۳،وابوداود:۵؍۳۹۸(۵۲۳۰)
جیسے عجمی لوگ ایک دوسرے کی تعظیم میں کھڑے ہوتے ہیں اس طرح مجھے دیکھ کر تم لوگ کھڑے نہ ہو ا کرو۔
ایک مرتبہ حضرت معاویہ
رضى اللہ عنہ باہر نکلے، وہا ں ابان بن زبیررضى اللہ عنہ اور ابن عامررضى اللہ عنہ تھے ،آپ کو دیکھ کر ابن عامر کھڑے ہو گئے اور ابن زبیر بیٹھے رہے، حضرت معاویہ رضى اللہ عنہ نے ابن عامررضى اللہ عنہ سے فرمایا : ’’ اجْلِسْ فَإِنِّى سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ : مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَمْثُلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ‘‘(رواہ ابو داود:۵؍ ۸ ۹ ۳،وا لترمذ ی :۵؍۹۰ ، وقال : حد یث حسن )بیٹھ جاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:جسے پسند ہو کہ لوگ اس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوں اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
بہر حال کلاس میں داخل ہوتے وقت اساتذۂ کرام کوخود سلام کرنا چاہئے اور طلبہ کو اپنی تعظیم کے لئے کھڑا نہیں کرنا چاہئے،بلکہ انھیں اس سے منع کرنا چاہئے۔
(۵) کلاس میں داخل ہوتے ہی طلبہ کی حاضری لینا:
کلاس میں آنے کے بعد اساتذہ کو سب سے پہلے طلبہ کی حاضری لینی چاہئے اورتاخیر سے آنے والوں کو غیر حاضر بنانا اور سختی سے تنبیہ کرنا چاہئے ۔اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ طلبہ اول وقت میں ہی کلاس میں پہونچ جائیں گے، درس كے لئے زیادہ وقت ملے گا، اساتذہ اطمینان سے پورا سبق پڑھائیں گے ، درمیان میں کوئی تشویش نہیں ہو گی اور طلبہ ڈسپلن اور نظام کی پابندی کے عادی بنیں گے ۔
بعض اساتذہ شروع میں تو حاضری لے لیتے ہیں مگر بعد میں آنے والے طلبہ کو بھی حاضر بناتے رہتے ہیں۔اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔بلکہ الٹے نقصان ہوتا ہے ۔
اسی طرح بعض اساتذہ گھنٹی کے اخیر میں حاضری لیتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طلبہ وقت کی پابندی نہیں کرتے اور اخیر تک آتے رہتے ہیں، جس سے درس میں تشویش ہو تی ہے اور جو طلبہ سبق کے ابتدائی حصے میں غیر حاضر رہتے ہیں وہ استاذ کے درس اور علمی فوائد سے محروم رہتے ہیں اور استاذ کی محنت خاطر خواہ بار آور نہیں ہوتی۔
جو طلبہ درس سے غیر حاضر رہیں اساتذہ کو ان کے بارے میں پرشش اورتحقیق کرنی چاہئے ،اور غیر معقول عذر ہونے کی صورت میں ان کی تنبیہ كے لئے مناسب کاروائی کرنی چاہئے۔تاکہ ان کی یہ بری عادت چھوٹ جائے اور وہ حقیقی طالب علم بن سکیں۔
(۶)کلاس کا جائزہ لینا:
حاضری لینے کے بعد اسا تذہ کو کلاس کا جائزہ لینا چاہئے اور طلبہ کے لباس ،شکل و صورت ، اور وضع قطع پر نظر ڈالنی چاہئے۔اسی طرح یہ بھی دیکھنا چاہئے کون درس کے لوازمات :کتاب ، کاپی اور قلم وغیرہ لایا ہے اور کون نہیں ۔نیز یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ کوئی غیر درسی چیزیں خاص طور سے گندے رسالے اور ناول وغیرہ تو لے کر نہیں آیا ہے اور درس سننے کے بجائے انھیں رسالوں اور کتابوں کو  پڑھتا ہے۔
بعض طلبہ کلاس میں کھیل کے سامان، ٹیپ ریکارڈ اور کیسٹیں لے کر آتے ہیں اور اساتذہ کی نظریں بچاکر ان سے کھیلنے اور محظوظ ہونے میں لگے رہتے ہیں اور سبق نہیں سنتے ۔کلاس میں ایسے طلبہ کی حاضری بے معنی ہوتی ہے۔ اس واسطے اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ درس شروع کرنے سے قبل کلاس کا جائزہ لیں اور جہاں انہیں آداب درس کے خلاف کوئی چیز نظر آئے فورا اس پر تنبیہ اور طلبہ کی ا صلا ح کریں ۔
(۷)کلاس میں طلبہ کو بٹھانے کا اصول:
کلاس کا جائزہ لیتے وقت اس کو بھی دیکھنا ضروری ہے کہ طلبہ کلاس میں قاعدے سے بیٹھے ہیں یا نہیں ، اگر طلبہ قاعدے سے نہیں بیٹھے ہیں اور اِدھر اُدھر متفرق و منتشر ہیں تو پھر درس کا خواطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا ۔
مختلف مدارس و جامعات میں طلبہ کے کلاس میں بٹھانے کے الگ الگ اصول ہیں، اس واسطے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس موضوع پر بھی کچھ گفتگو ہوجائے ۔
بعض مدارس میں طلبہ کو کلاس میں بٹھانے کا اصول یہ ہے کہ سالانہ امتحان میں نمبرات کے حساب سے جیسے ان کی ترتیب ہوتی ہے اسی ترتیب سے کلاس میں بٹھاتے ہیں ،اس میں جہاں یہ فائدہ ہے کہ ذہین اور محنتی طلبہ کے آگے اور استاذ کے قریب ہونے کہ وجہ سے ، وہ صحیح صحیح عبارت خوانی کرتے ، استاذ کی باتوں اور درس کو جلدی اور اچھی طرح سمجھتے ہیں اور بعد میں اپنے ساتھیوں کو مذاکرہ کراتے اور درس سمجھاتے ہیں ، وہیں اس میں یہ خامی بھی ہے کہ اس سے کمزور طلبہ پیچھے ہوجاتے ہیں جو ایک تو پہلے سے پیچھے اورکمزور ہوتے ہیں دوسرے استاذ سے دور اور آخری صفوں میں ہوجانے کی وجہ سے استاذ کے درس اور تقریر کو صحیح اور مکمل طور سے نہیں سن پاتے ،جس سے سبق کے بہت سے اجزاء ان کی سمجھ میں نہیں آتے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ترقی کرنے کے بجائے علمی اعتبار سے اور پیچھے ہوتے جاتے ہیں۔علاوہ ازیں اس سے بہت سے طلبہ استاذ کی نظروں سے دور ہونے اور سبق کے برابر نہ سننے کی وجہ سے اونگھنے اور سونے لگنے لگتے ہیں یا کسی دوسرے کام میں مشغول ہوجاتے ہیں ۔ اس طرح یہ طلبہ تعلیم میں مزید کمزور اور پیچھے ہو تے جاتے ہیں ۔
بعض اساتذہ کمزور ، معذور اور شریر بچوں کو آگے بٹھاتے ہیں، تاکہ کمزور اور اونچا سننے والے بچے استاذ کی باتوں کو اچھی طرح سن اور سمجھ سکیں اور تعلیم میں پیچھے نہ رہ جائیں ،اسی طرح وہ طلبہ جو شرارت کرتے ہیں یا درس کے وقت سوتے رہتے ہیں انھیں بھی آگے بٹھاتے ہیں تاکہ ان پر برابر نظر رہے اور انھیں سونے یا شرارت کرنے کا موقع نہ ملے، یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن اگر سارے ذہین بچے پیچھے چلیں جائیں تو یہ ہوسکتا ہے کہ استاذ کی کچھ علمی باتیں وہ بھی نہ سن پائیں اور کمزور بچے بھی نہ سمجھ پائیں جس سے وہ باتیں غیر مفہوم رہ جائیں ۔ اورجامع ترمذی: ۵؍۷۳ (۷۲۵ ۲) سنن ابی داود :۵؍۱۶۴(۴۸۲۵) الادب المفرد للبخاری :ص۲۹۲(۱۱۴۱) میں حضرت جابر بن سمرۃ رضى اللہ عنہ کی روایت ہے : ’’ كُنَّا إِذَا أَتَيْنَا النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم جَلَسَ أَحَدُنَا حَيْثُ يَنْتَهِى ‘‘ ہم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوتے تو مجلس جہاں ختم ہوتی وہیں بیٹھ جاتے تھے ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجلس اور کلاس میں پہلے آنے والوں کو آگے اور مدرس کے قریب بیٹھنے کا زیادہ حق ہے اور ہر شخص جیسے جیسے آئے پیچھے ترتیب سے بیٹھتا جائے۔
البتہ صحیح بخاری :۱؍۱۵۶(۶۶) ’’ باب من قعد حيث ينتهي به المجلس ومن رأى فرجة في الحلقة فجلس فيها ‘‘ اور جامع الترمذی :۵؍۷۳ ( ۲۷۲۴)میں ابوو ا قد اللیثی سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرماتھے اور آپ کے ساتھ دوسرے لوگ بھی تھے کہ تین آدمی آئے جن میں سے دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کے قریب آئے اور کھڑے ہوگئے ، پھر ایک آدمی نے حلقہ میں ایک خالی جگہ دیکھی اور وہاں جاکر بیٹھ گیا اور دوسرا ان کے پیچھے جاکر بیٹھ گیا اور تیسرا پیٹھ پھیر کر چلاگیا ، رسول اللہْ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی باتوں سے فارغ ہوئے تو فرمایا :’’ کیا میں تم لوگوں کو تینوں افراد کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ اس میں سے ایک نے اللہ کے پاس پناہ لی ، اور دوسراشرمایا (اور اس کی وجہ سے مجلس سے واپس نہیں گیا ) تو اللہ نے بھی اس سے شرم کی (اور اس پر رحم فرمایا ) اور تیسرا رخ پھیر کر چلا گیا تو اللہ نے بھی اس سے رخ پھیر لیا ‘‘۔
اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ اگر آگے کی صفوں میں یا حلقۂدرس میں کوئی جگہ خالی ہوتو بعد میں آنے والے شخص کے لئے اس جگہ بیٹھنا نہ صرف جائز ہے بلکہ مستحب بھی ہے ۔ اور ان حدیثوں سے مجموعی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو طلبہ کلاس میں پہلے آئیں وہ آگے بیٹھیں اور بعد میں آنے والے جہاں جگہ خالی دیکھیں وہاں یا اخیر مجلس میں بیٹھیں ۔
اس میں کئی فائدے ہیں ، مثلاً: آگے بیٹھنے کے لئے ہر طالب علم کلاس میں پہلے پہونچنے کی کوشش کرے گا اوراس میں ہر طالب علم کے لئے آگے بیٹھنے اور استاذ کے درس سے اچھی طرح استفادہ کرنے کا موقع رہتا ہے ، اور جس کو بھی علم کا شوق ہوگا خواہ وہ ذہین و فطین ہو یا کمزور اور غبی ، وہ پہلے آکر استاذ کے قریب اور سامنے بیٹھنے کی کوشش کرے گا ۔
رہے کلاس میں سونے اور شرارت کرنے والے طلبہ تو استاذ انھیں تنبیہ کرسکتا اور اول وقت میں کلاس میں بلاکر اپنے قریب اور سامنے بٹھا سکتا ہے ،بصورت دیگر اپنے دائیں بائیں بٹھا سکتا ہے ۔
اس واسطے میرے نزدیک یہ طریقہ سب سے زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے، البتہ درس کی مصلحت کی خاطر استاذ کبھی بعض ذہین طلبہ کو آگے بلا سکتا ہے ۔جیسا کہ امام مالک  رحمہ الله نے امام شافعی رحمہ الله کو بلایا تھا۔ (انظر رحلۃ الامام الشافعی: ص۲۵،۲۶ )
(۸)عبارت خوانی کرانا:
حاضری اور کلاس کاجائزہ لینے کے بعد اساتذہ کسی طالب علم سے اس دن پڑھائے جانے والے سبق کی عبارت خوانی کرائیں اور اعراب ،تلفظ اور لب و لہجہ میں اگر کوئی خامی یا غلطی ہو تو اس کی اصلاح کریں ۔
عبارت خوانی میں اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ روزانہ ایک ہی طالب علم ،یاصرف چند طلبہ ہی عبارت خوانی نہ کریں ۔بلکہ کلاس کے تمام طلبہ سے باری باری عبارت خوانی کرائیں، ورنہ جو طلبہ عبارت خوانی نہیں کریں گے وہ قواعد( نحو و صرف) کی تطبیق، اورالفاظ کی صحیح ادائیگی میں کمزور رہ جائیں گے اور کتاب صحیح طریقہ سے نہیں سمجھ سکیں گے، نیز وہ محنت کرنا چھوڑ دیں گے اور کم ہمتی و بزدلی کا شکار ہو جائیں گے، جس سے و ہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے ۔
مطالعہ کے لئے باری مقرر کرنے کے بجائے سب کو روزانہ مطالعہ کر کے آنے کا مکلف کریں اور ہر روز بدل بدل کر اپنی مرضی سے بھی کسی طالب علم سے عبارت پڑھوائیں ۔یہ طریقہ باری مقرر کرنے سے زیادہ بہتر ہے، اس واسطے کہ اس سے سارے طلبہ روزانہ مطالعہ اور عبارت فہمی كے لئے محنت کریں گے، اور باری مقرر کرنے کی صورت میں جس کی باری ہو گی صرف وہی مطالعہ کر ے گا اور باقی طلبہ غفلت سے کام لیں گے ۔البتہ اگر زیادہ کتابیں اور گھنٹیا ں ہوں اور ساری کتابوں کا مطالعہ اور مذاکرہ ہر طالب علم کے لئے مشکل ہو تو اس طرح باری مقرر کی جا سکتی ہے کہ ہر طالب علم کم از کم ایک کتاب کی عبارت خوانی روزانہ ضرور کرے۔
(۹) درس کے وقت کلاس میں نظم برقرار رکھنا:
اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ درس کے وقت اپنے کلاس میں نظم و نسق کو برقرار رکھیں ،کلاس پر ان کا مکمل کنٹرول ہو ۔ اور طلبہ درس کے وقت خاموشی اور توجہ سے درس سنیں ،ضروری باتیں نوٹ کریں، اور اِدھر اُدھر تانک جھانک، جھگڑا لڑائی اورکھیل کود سے اجتناب کریں اور دوسری کتابوں اور مجلات و جرائد کا مطالعہ نہ کریں۔
اسی طرح درس کے وقت طلبہ کی آمد و رفت کا سلسلہ بند ہو نا چاہئے ۔ کیونکہ دوران سبق طلبہ کے بار بار آنے جانے سے درس میں کافی تشویش اور پریشانی ہو تی ہے، افکا ر کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے،خیالات منتشر ہو جاتے ہیں اور اساتذہ و طلبہ کی توجہ دوسری طرف چلی جاتی ہے۔
بعض اساتذہ کو دیکھا گیا ہے کہ کلاس میں چند طلبہ انہیں گھیر کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اپنی باتوں میں انہیں لگائے رہتے ہیں اور دوسرے طلبہ چپکے چپکے پیچھے سے باہر نکل جاتے ہیں۔اس طرح درس کا بھی نقصان ہوتا ہے اور کلاس اور اسکول میں بد نظمی ہوتی ہے۔اساتذہ کو بہت ہوشیار ہونا چاہئے اور طلبہ کی اس قسم کی سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہئے۔اور کلاس پر مکمل کنٹرول رکھنا چاہئے۔
(۱۰)آسان زبان و بہترین اسلوب اختیار کرنا:
درس کی تفہیم اور مسائل کی توضیح میں اساتذہ کو ہمیشہ ایسی زبان استعمال کرنی چاہئے جو عام فہم اور طلبہ وطالبات کے معیار کے مطابق ہو ،تا کہ وہ ان کی باتوں کو آسانی سے سمجھ سکیں ۔مشکل الفا ظ ، دوسری زبانوں کے غیر مانوس کلمات اورمقفیٰ ومسجع عبارتوں کا درس میں استعمال کرنا ٹھیک نہیں ، اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں رسول اسی قوم میں سے مبعوث فرمایا، جو ان کی زبان سے اچھی طرح واقف ہوتا تھا ، اور انھیں کی زبان میں انھیں وعظ و نصیحت کرتا ،تعلیم دیتااور دعوت و تبلیغ کرتا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ  ﮟ  إبراهيم: ٤ اور ہم نے ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا تاکہ ان کے سامنے وضاحت سے بیان کردے۔
جب اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کوبھیجتے وقت اس بات کا لحاظ رکھا کہ وہ اپنی قوم کی زبان سے اچھی طرح واقف ہوں، اور انبیاء علیہم السلام اپنی قوم کوانہیں کی زبان میں تعلیم دیتے تھے تو اساتذہ اور معلّمات کو بھی اس کا لحاظ رکھنا چاہئے، اور تدریس وتفہیم میں طلبہ کی زبان اور ان کے معیار کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ ماہرین تعلیم کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ بچوں کی ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں ہی ہونی چاہئے، تاکہ ان کو سمجھنے میں سہولت ہو اور زبان اور مسائل کے سمجھنے کا ڈبل بوجھ ان پر نہ پڑ ے ۔
(۱۱)درس کے وقت آواز کاواضح اور بلند ہونا:
اساتذہ کی آواز درس دیتے وقت اتنی بلند ہونی چاہئے کہ کلاس کے تمام طلبہ وطالبات اسے بآسانی سن سکیں، اور زبان اتنی واضح ہو نی چاہئے کہ سب بآسانی سمجھ سکیں ۔
بعض اساتذہ و معلّمات درس کے وقت اپنی آواز اتنی پست رکھتے ہیں کہ طلبہ و طالبات صحیح طریقہ سے ان کی باتیں نہیں سن پاتے،ایسی صورت میں ان کے درس کاخاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تھے توآپ کی آواز بلند ہوتی تھی۔ حضرت جابررضى اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے اور قیامت کا ذکر فرماتے تو آپ کا غضب شدید ہوجاتا اور آپ کی آواز بلند ہوجاتی۔ (صحيح مسلم : 3/ 11)
اور حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے ۔ آپ جب ہمارے پاس پہونچے تو نماز کا وقت تنگ ہوگیا تھا، اور ہم وضو کررہے اور اپنے پاؤں پر مسح کر رہے تھے۔ آپ نے یہ دیکھ کر بلند آواز سے پکار کر دویا تین بار فرمایا:’’ وَيْلٌ لِلأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ ‘‘. (رواہ البخاری :۱؍۸۴۳) آگ کے عذاب کی خرابی ہے ان ایڑیوں كے لئے جو خشک رہ جا ئیں ۔
اس سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت بات کو مکرر سہ کرر بیان کرنا چاہئے وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ معلم کی آواز بقدر ضرورت بلند ہونی چاہئے تاکہ سارے مخاطبین سن سکیں۔ لہٰذا اساتذہ و معلّمات کو چاہئے کہ درس میں اپنی آواز اسقدر بلند رکھیں کہ تمام طلبہ وطالبات بآسانی اسے سن سکیں اور مناسب آواز اور دلکش انداز میں شوق ورغبت سے پڑھائیں، بے دلی سے اور ایسی پست آواز میں نہ پڑھائیں کہ ان کی بات طلبہ کی سمجھ میں نہ آئے ، جو اساتذہ و مدرسین ایسا کرتے ہیں وہ عموما ناکام رہتے ہیں،ہم نے ایک عرب استاذ کو دیکھا ،جب وہ کلاس میں آتے تو اپنی جگہ پر بیٹھتے ہی کتاب میز پر رکھتے اور سرنیچا کر کے پڑھانے لگتے ، ان کی آواز اتنی پست ہوتی کہ طلبہ کو برابر سنائی نہیں پڑتی اور ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کہتے ہیں ،اورجب درس طلبہ کی سمجھ میں نہیں آتا اور دیکھتے کہ شیخ سر اوپر اٹھا کر دیکھتے بھی نہیں ہیں تو آہستہ آہستہ کلاس سے بھاگ نکلتے اور کبھی کبھی صورت حال یہ ہوتی ہے کہ صرف دو چار طلبہ ہی کلاس میں رہ جاتے ۔
بہر حال اساتذہ کی آواز بقدر ضرورت بلندہو نی چاہئے ،اور انھیں تمام طلبہ سے مخاطب ہونا اورچاروں طرف دیکھنا چاہئے ، بولنے کی رفتار درمیانی اور معتدل ہو نی چاہئے، نہ بہت تیز ہو کہ طلبہ تمام باتیں اپنی گرفت میں نہ لے سکیں اور نہ اتنی سست ہو کہ وہ اکتا جائیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے با ر ے میں وارد ہے کہ جب آپ گفتگو فرماتے تو آپ کا ایک ایک لفظ اس طرح واضح ہو تا تھا کہ گننا چاہیں تو گن سکتے تھے۔
درس اور وعظ ونصیحت میں اس کا بھی لحاظ رکھنا چاہئے کہ آواز اس قدر بلند ، اور کرخت نہ ہو کہ سننے والوں پر گراں اور ان کے ذوق سماعت پر بار گزرے۔ بے تحاشہ چیخنے کی وجہ سے ہی گدہے کے بارے میں کہاگیا ہے : إِنَّ أَنکَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ  (لقمان: ١٩) بیشک گدھے کی آواز سب سے خراب آواز ہے۔
اس واسطے درس میں بے تحاشہ چیخنے سے بھی احتراز کرنا چاہئے اور مناسب ودلکش آواز میں درس دینا چاہئے ۔
(۱۲) درس کے مسائل اور عبارتوں کی اچھی طرح تشریح کرنا:
اساتذہ کو چاہئے کہ درس کے مسائل اور عبارتوں کی اچھی طرح تشریح کریں اور جومسائل اور باتیں تفصیل طلب ہوں انھیں تفصیل کے ساتھ سمجھائیں، صرف ترجمہ کر کے یا سر سر ی اشارہ کر کے نہ گزر جائیں، البتہ جو باتیں طلبہ کے لئے آسان ہوں اور جنھیں وہ پہلے سے پڑھ اور سمجھ چکے ہوں ان کی جانب اشارہ کرنا ہی کافی ہے ۔اسی طرح مشکل عبارتوں کی بھی اچھی طرح تفہیم کریں ، پہلے مفردات کی تشریح کریں ،پھر پوری عبارت کو سمجھائیں ،لفظی ترجمہ، اصطلاحی ترجمہ ، واحد ،جمع اور مصدر ،اصل مادّہ ،باب ،صیغہ اور ترکیب وغیرہ بتائیں ،تاکہ عبارت اچھی طرح حل ہوجائے اور اس کا مفہوم اچھی طرح واضح ہو جائے ۔
(۱۳) طلبہ کے معیار کے مطابق باتیں بتانا:
علمی اور فقہی باتوں کو پیش کرتے وقت طلبہ ، طالبات اور حاضرین کے ذہنی وعلمی معیار اور عمر وغیرہ کا لحاظ رکھنا چاہئے اور ان کے سامنے ایسی باتیں ہرگز نہیں پیش کرنی چاہئے جو ان کی سمجھ سے بالا تر ہو ں۔حضرت علی رضى اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا يَعْرِفُونَ أَتُحِبُّونَ أَنْ يُكَذَّبَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ‘‘ (رواہ البخاری : ۱؍۲۲۵) لوگوں سے ایسی باتیں بیان کرو جو وہ سمجھ سکیں ،کیا تم لوگ چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی جائے ۔
اور بعض روایتوں میں ہے :’’دَعُوْا مَا يُنْکِرُوْن‘‘(رواہ آدم بن ا یاس وابو نعیم) یعنی جو باتیں اور مسائل ان کے معیار سے بلند ہوں اور جو وہ نہ سمجھ سکتے ہوں اور ان کوبیان کرنے کی صورت میں انکار کرنے اور فتنہ میں پڑ جانے کا خطرہ ہو ان مسائل اور باتوں کو چھوڑ دو۔
اور عبد اللہ بن مسعودرضى اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ مَا أَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِيثًا لاَ تَبْلُغُهُ عُقُولُهُمْ إِلاَّ كَانَ لِبَعْضِهِمْ فِتْنَةً ‘‘ (صحيح مسلم : 1/ 9) جب آپ کسی قوم سے ایسی باتیں کریں گے جو ان کی سمجھ سے بالاتر ہوں گی تو یہ ان میں سے بعض لوگوں کے لئے فتنہ کا باعث ہوں گی۔
اس لئے علمی باتیں اور مسائل پیش کرتے وقت مخاطبین کے علم ،عمر اور سمجھ بوجھ وذہنی معیار کا لحاظ کرنا ضروری ہے ۔ بعض اساتذہ نابالغ بچوں اور بچیوں کے سامنے نکاح ، جماع، غسل جنابت،حیض ونفاس اور ولادت وغیرہ کے مسائل چھیڑ دیتے ہیں ،بعض لوگ چھوٹے بچوں کے سامنے انکار حدیث کی تاریخ اورمنکرین حدیث کے شبہات وغیرہ بیان کرتے ہیں، جو ان کی عمر اور عقل
کے اعتبار سے قطعاً مناسب نہیں۔
(۱۴)مکر ر سہ کر ر سمجھا نا:
اگر کوئی مسئلہ ایسا ہو جس کو طلبہ و طالبات ایک مرتبہ بتانے اور سمجھانے سے بآسانی نہ سمجھ سکتے ہوں تو انھیں وہ مسئلہ مکرر سہ کرر سمجھا نا چاہئے، تا کہ طلبہ اسے اچھی طرح سمجھ سکیں ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کرتے ہیں : ’’ أَنَّهُ كَانَ إِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلاَثًا حَتَّى تُفْهَمَ عَنْهُ ، وَإِذَا أَتَى عَلَى قَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ سَلَّمَ عَلَيْهِمْ ‘‘ (بخاری:۱؍۱۸۸ مع الفتح) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب لوگوں سے گفتگو فرماتے اور کوئی بات کہتے تواس کو تین مرتبہ دہراتے یہاں تک کہ وہ بات اچھی طرح لوگوں کے سمجھ میں آجاتی ۔اور جب کسی قوم کے پاس آتے تو سلام کرتے اور تین مرتبہ ان سے سلام کرتے ۔
امام نووی رحمہ الله فرماتے ہیں :یہ حدیث اس صورت پر محمول ہے جب مجمع بڑاہو۔ (الاذکار: ص۲۱۹ )
میں کہتا ہوں کہ بات کے اعادہ کے سلسلہ میں یہ اس صورت پر بھی محمول ہوگی جب کوئی بات مشکل ہونے یا کسی اور بنا پر ایک مرتبہ کہنے اور سمجھانے سے مخاطبین کی سمجھ میں نہ آئے ،الحمد للہ آج ماہرین تعلیم نے بھی اعادہ وتکرار کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے اور تدریس کے اسالیب میں سے ایک اہم چیز درس کے اعادہ کو بھی مانا ہے ۔
مگر اساتذہ و معلّمات کو چاہئے کہ درس کے اعادہ اورمکرر سہ کرر سمجھانے میں اس کی حاجت و ضرورت کا ضرورلحاظ کریں ،ایسا نہ ہو کہ بالکل آسان اور عام فہم مسائل کو بلاضرورت مکرر سہ کرر سمجھائیں ۔ اساتذہ کرام کو معلوم ہے کہ کچھ طلبہ کم پڑھنے اور امتحان میں محنت سے بچنے کے لئے جھوٹ بولتے اور بلاوجہ یہ کہتے رہتے ہیں کہ استاذ ! یہ سبق پھر سے سمجھائیے ،ہم لوگوں کی سمجھ میں نہیں آیا ہے، ایسے طلبہ سے ہوشیار رہیں اور بلاوجہ درس کے اعادہ و تکرار سے بچیں۔
(۱۵) عملی طور سے(پریکٹیکل) کر کے دکھانا :
کچھ مسائل اور چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب تک ان کو عملی طور سے کر کے نہ دکھایا جائے طلبہ کی سمجھ میں نہیں آتیں ،ایسی چیزوں کو عملی طور سے(پریکٹیکل) کر کے دکھا نا چاہئے ،کتاب و سنت میں اس کی کئی نظیر موجود ہیں ،مثال کے طور پر جب نماز کی فرضیت نازل ہوئی توحضرت جبریل علىہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو روز باقاعدہ نماز پڑھ کر دکھایا، پہلے روز اول وقت میں، اور دوسرے روز آخروقت میں ، اور پھر فرمایا:’’ وَالْوَقْتُ فِيمَا بَيْنَ هَذَيْنِ الْوَقْتَيْنِ ‘‘(سنن أبي داود محقق وبتعليق الألباني: 1/ 150 , سنن الترمذي: 1/ 278 , المستدرك على الصحيحين للحاكم : 1/ 306)اور وقت ان دونوں وقتوں کے در میا ن ہے۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صحابہ کرام کو نماز پڑھ کر دکھایا اور فرمایا: ’’صَلُّوْا کَمَا رَأيْتُمُو نِیْ اُصَلِّیْ‘‘(رواہ البخاری و احمد، انظر البخاری: ۱؍۱۱۱[۳۱ ۶ ] و مسند احمد :۵؍۵۳)
ایک مرتبہ آپ نے منبر پر نماز پڑھی اور جب سجدہ کرنا ہوا تو الٹے قدم نیچے اتر کر سجدہ کیا اور پھر منبر پر لوٹ آئے۔ اورنماز سے فراغت کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:’’ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا صَنَعْتُ هَذَا لِتَأْتَمُّوا وَلِتَعَلَّمُوا صَلاَتِي ‘‘ (البخاری:۲؍۳۹۷) اے لوگو! میں نے ایسا صرف اس لئے کیا تاکہ تم لوگ میری اقتداء کرو اور میری نماز سیکھ لو۔اسی طرح آپ نے حج بھی عملًا کر کے دکھا یا اور فرمایا: ’’ خُذُوا عَنِّي مَنَاسِكَكُمْ ‘‘(رواہ احمد: 3 / 318) تم لوگ مجھ سے مناسک حج سیکھ لو۔
آج بھی عربی مدارس میں نیچے کے درجات میں طلبہ سے عملی وضو کرایا جاتا،اور عملی نمازیں پڑھائی جاتیں ہیں ،اس واسطے کہ اگر ان طلبہ کو صرف زبانی وضوء کا طریقہ بتا دیا جائے تو کچھ بھی ان کے پلّے نہیں پڑے گا ،لیکن جب سامنے وضو کر کے انہیں دکھایا جاتاہے ،اور اپنے سامنے کھڑا کرکے باقاعدہ انہیں عملی نماز پڑھائی جاتی ہے، تو طلبہ وضو کا مکمل طریقہ اور نماز میں قیام، رکوع ، سجدہ، جلسہ ، تشہد وغیرہ تمام اعمال کا صحیح طریقہ سیکھ لیتے ہیں اور انہیں ساری دعائیں یاد ہو جاتیں ہیں۔
بہر حال جن چیزوں کی تعلیم و تفہیم کے لئے عملی طور سے کر کے دکھانا ضروری یا زیادہ مفید ہو انھیں عملی طور سے کر کے دکھانا چاہئے، عصری علوم کی تعلیم میں پریکٹیکل کی بڑی اہمیت ہے ، خاص طور سے سائنس اور طب میں۔مگر دینی علوم کی تعلیم میں بھی اس کی ضرورت پڑتی ہے، اور بوقت ضرورت اس کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔
(۱۶)مثالوں کے ذریعہ سمجھانا:
بہت سی باتیں اوراصول وقواعد مثالوں کے بغیر سمجھ میں نہیں آتے، اور کچھ باتیں ایسی ہو تی ہیں جو مثالوں سے بہت جلد سمجھ میں آجاتی ہیں، اور بغیر مثال کے سمجھانے میں دیرلگتی اور پر یشا نی ہوتی ہے، ایسی باتوں کومثالوں کے ذریعہ سمجھانا چاہئے ، کتاب وسنت میں اس کی بہت سی مثا لیں مو جود ہیں ۔
مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مَثَلُهُمْ کَمَثَلِ الَّذِیْ اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا أَضَاء تْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَکَهُمْ فِیْ ظُلُمَاتٍ لاَّ يُبْصِرُونَ  (البقرة: ١٧) ان لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی ،پھر جب اس کے آس پاس کی چیزیں روشنی میں آگئیں تو اللہ نے ان کے نور کوچھین لیا اور انھیں اندھیرے میں چھوڑ دیا ،جو دیکھتے نہیں۔
اس میں اللہ نے ان لوگوں کے بارے میں جو پہلے تو مسلمان ہوئے ،لیکن پھر جلدہی منافق ہو گئے، بتایا کہ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اندھیرے میں تھا، پھر اس نے روشنی جلائی جس سے اس کا ماحول روشن ہو گیا اور مفید اور نقصان دہ چیزیں اس پر واضح ہو گئیں ، پھردفعتًا وہ روشنی بجھ گئی، اور وہ حسب سابق تاریکیوں میں گھر گیا، یہ منافقین بھی پہلے شرک کی تاریکی میں تھے ،پھر مسلمان ہوئے تو ایمان کی روشنی میں آگئے، اور حلال و حرام اور خیر و شر کو پہچان گئے ،پھر دوبارہ نفاق کی جانب لوٹ گئے تو ساری روشنی جاتی رہی ۔ (فتح القدیر)
ایک دوسری جگہ فرمایا : مَّثَلُ الَّذِيْنَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِيْلِ اللّهِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنبُلَةٍ مِّئَةُ حَبَّةٍ وَاللّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ وَالله وَاسِعٌ عَلِيْمٌ  (البقرة: ٢٦١)جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کئے ہوئے مال کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں ،اور ہر بالی میں سو دانے ہوں،اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بڑھا چڑھا کر دیتاہے،اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔
اسی طرح باتوں کی وضاحت اور مسائل کی توضیح و تشریح کے لئے اور بہت سی مثالیں قرآن کریم میں موجود ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی باتوں کو سمجھانے كے لئے مثالوں کا استعمال کیا ہے، مثلاً آپ نے فرمایا:’’ مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِى تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى ‘‘(صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 8/ 12 , صحيح مسلم : 8/ 20)
مومنوں کی مثال آپسی لطف و محبت اور رحم دلی میں ایک جسم کے مانند ہے کہ اس کے کسی بھی عضومیں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بخار،درد اور جاگنے میں برابر شریک ہوتا ہے ۔
اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے باہمی ربط اور محبت و تعلق کو ایک مثال کے ذریعہ سمجھایا ہے کہ مسلم معاشرہ ایک جسم کی طرح ہے، جیسے جسم کے کسی ایک عضو میں بیماری اور تکلیف ہو تو پورا جسم تکلیف میں شریک ہوتا ہے، ایسے ہی اگر کسی مسلمان کو تکلیف ہو تو اس تکلیف میں سارے مسلمانوں کو شریک ہونا چاہئے ۔
ایک حدیث میں آپ نے فرمایا:’’ مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِى يَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَثَلُ الأُتْرُجَّةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا طَيِّبٌ وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِى لاَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ التَّمْرَةِ طَعْمُهَا طَيِّبٌ وَلاَ رِيحَ لَهَا وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِى يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الرَّيْحَانَةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا مُرٌّ وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِى لاَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْحَنْظَلَةِ طَعْمُهَا مُرٌّ وَلاَ رِيحَ لَهَا وَمَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ كَمَثَلِ صَاحِبِ الْمِسْكِ إِنْ لَمْ يُصِبْكَ مِنْهُ شَىْءٌ أَصَابَكَ مِنْ رِيحِهِ وَمَثَلُ جَلِيسِ السُّوءِ كَمَثَلِ صَاحِبِ الْكِيرِ إِنْ لَمْ يُصِبْكَ مِنْ سَوَادِهِ أَصَابَكَ مِنْ دُخَانِهِ ‘‘ (سنن أبي داود محقق وبتعليق الألباني : 4/ 406)
اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اترجہ (سنترے کے مانند ایک خوش ذائقہ اور خوشبو دار پھل)کی مانند ہے ،جس کی بو بھی اچھی ہو تی ہے اور ذائقہ بھی اچھا ہوتا ہے ۔اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا کھجور کی طرح ہے، جس کا ذائقہ اچھا ہو تا ہے ، مگر اس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی۔ اور اس فاجر کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے، ریحانہ(ایک خوشبو دار پھل) کی مانند ہے، جس کی بو اچھی ہو تی ہے، مگرذائقہ کڑوا ہو تا ہے ،اور اس فاجر کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا، اندرائن کی مانند ہے، جس کا ذائقہ بھی کڑوا ہوتا ہے، اور اس میں کوئی بو بھی نہیں ہوتی ۔اچھے ساتھی کی مثال مسک والے کی مانند ہے  اگر تمہیں اس میں سے کچھ نہیں لگے گا توخوشبو ضرور ملے گی،  برے ساتھی کی مثال بھٹی والے(لوہار وغیرہ) کی مانند ہے ،اگر تمہیں اس کی سیاہی نہ لگے، تو اس کا دھواں تو ضرور لگے گا۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن اور فاجر اور ان کے قرآن پڑھنے اور نہ پڑھنے کے عمل کے اثرات کو محسوس چیزوں سے تشبیہ دے کر بہت زیادہ آسان قابل فہم اور اثر انگیز بنادیا ہے،اسی طرح برے ساتھی کو لوہار سے تشبیہ دے کر یہ واضح فرمایا ہے کہ جس طرح لوہار کے پاس بیٹھنے والا اگر اس کے کوئلے کی سیاہی اورآگ کی چنگاریوں سے بچ بھی جائے تو کم از کم اسے دھواں تو لگے گا ہی ۔ ا سی طرح برے شخص کی صحبت میں رہنے والے کو بھی اس کی وجہ سے کچھ نہ کچھ تکلیف اور نقصان ضرورپہونچے گا ۔اس واسطے بروں کی صحبت سے حتی الامکان دور رہنا چاہئے۔
بہر حال کتاب و سنت میں بہت سی باتوں کی توضیح مثالیں دیکر اور تشبیہ اور تمثیل کے ذریعہ کی گئی ہے، اس واسطے اساتذہ و معلّمات کو بھی اپنی باتوں کو سمجھانے كے لئے مثالوں سے مدد لینی چا ہئے ۔
(۱۷)اشارے کے ذریعہ سمجھانا:
بعض اشیاء کا اشارے کے ذریعہ سمجھا نا آسان ہو تا ہے اور اس سے مخاطبین بات کو بڑی آسانی سے سمجھ لیتے ہیں، ایسی صورت میں اساتذہ کو تفہیم کے لئے اشارے کااستعمال کرنا چاہئے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سمجھانے کے لئے کہ قمری مہینہ کبھی انتیس دن کا ہو تا ہے اور کبھی تیس دن کا اشارے سے کام لیا، اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو پھیلا کر اشارہ کرتے ہوئے فر مایا : ’’الشَّهْرُ هٰکَذا وَ هٰکَذاوَ هٰکَذا‘‘ کبھی مہینہ اس طرح اور اس طرح اور اس طرح ہوتا ہے اور تیسری مرتبہ انگوٹھے کو موڑلیا ، پھر فرمایا: ’’ ’’الشَّهْرُ هٰکَذا وَ هٰکَذاوَ هٰکَذا ‘‘اور اس مرتبہ انگوٹھے کو نہیں موڑا، اس طرح آپ نے اشارہ فرمایا کہ مہینہ کبھی انتیس کا اور کبھی تیس کا ہو تا ہے ۔  (صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 7/ 68 , صحيح مسلم : 3/ 123)
اسی طرح مسلمانو ں کے باہمی ربط و تعلق کو بتانے كے لئے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ إِنَّ الْمُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا ‘‘مومن مومن کے لئے عمارت کی مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے میں پیوست ہو کر اس کومضبوط کرتا ہے ،راوی حدیث حضرت ابوموسیٰ اشعری رضى اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ وَشَبَّكَ أَصَابِعَهُ ‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر جال بنا کر دکھایا۔ (صحيح البخاري  حسب ترقيم فتح الباري : 1/ 129 , صحيح مسلم : 8/ 20)
اورحضرت سہل بن سعد الساعدی رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ أَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ فِي الْجَنَّةِ هَكَذَا وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى ‘‘(صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري :  7/ 68) میں اور یتیم کی کفاکت کرنے والا جنت میں ان دونوں انگلیوں کی طرح ہوں گے ۔اور یہ کہتے ہوئے آپ نے درمیانی اور شہادت والی انگلی سے اشارہ کیا۔
ظاہر ہے کہ اس اشارے سے صحابہ کرام کی سمجھ میں یہ بات بڑی آسانی سے آگئی ہوگی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ایک دوسرے سے بالکل قریب ہوں گے اور دونوں کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہو گی۔
ایک بار سفیان بن عبد اللہ رضى اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ: اللہ کے رسول یہ ارشاد فرمائیے کہ آپ کی نظر میں میرے لئے کون سی چیز سب سے زیادہ خطرناک ہے ؟آپ نے اپنی زبان کو پکڑ کر فرمایا:یہ۔(رواه الترمذي :  4/ 607 وصححہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر جواب میں ’’یہ‘‘ کہہ کرجہاں اس بات کی جانب اشارہ فرمایا کہ زبان کے استعمال میں بے احتیاطی سب سے خطر ناک امر ہے وہیں آپ نے زبان کو پکڑ کر اس بات کی جانب بھی اشارہ کردیا کہ زبان پر گرفت ہونا اور اس کو اپنے قابو میں رکھنا ضروری ہے ۔
در اصل بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں لوگ اشارے سے بڑی آسانی کے ساتھ سمجھ جاتے ہیں اور صرف زبان سے کہنے سے یا تو اسے دیر میں سمجھتے ہیں یا سمجھ ہی نہیں پاتے ہیں ، ایسے مواقع پر تفہیم کے لئے اشاروں کا استعمال کرنا زیادہ مناسب اوربہتر یا ضروری ہو تا ہے۔
بہر حال تعلیم و تربیت کا کام کرنے والوں کو چاہئے کہ اپنی باتوں کو اچھی طرح سمجھانے اور واضح کرنے کے لئے حسب ضرورت اشاروں سے بھی مدد لیں۔
(۱۸)نقشہ بنا کر یا لکیریں کھینچ کر سمجھانا:
بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو نقشہ بنا کر یا لکیروں سے اس کی شکل بنا کر دکھانے اور سمجھا نے سے مخاطبین کوفورا سمجھ میں آجاتی ہیں،اور اگر ویسے سمجھایا جائے تو سمجھ میں نہیں آتیں ۔ ایسی چیزو ں کونقشہ کے ذریعہ یا خطوط کھینچ کر سمجھانا چاہئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حسب ضرورت ا یسا کیا کرتے تھے ۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے ، آپ نے ایک سیدھی لکیر کھینچی ،پھر اسکے دائیں جانب دو لکیریں اوربائیں جانب دو لکیریں کھینچیں ،پھر درمیان والی لکیر پر اپنا ہاتھ رکھا اور فر مایا: یہ اللہ کا راستہ ہے ،پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی: وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِيْماً فَاتَّبِعُوهُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَن سَبِيْلِهِ  الأنعام: ١٥٣  (رواہ ابن ماجہ: ۱؍۲۴) یہی میرا سیدھا راستہ ہے پس تم اسی کو اختیار کرو اور دوسرے راستوں کواختیار نہ کرو اس لئے کہ وہ تم کو اس کے راستے سے ہٹاکر متفرق کردیں گے۔
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے ایک خط کھینچا اور فرمایا کہ یہ اللہ کا راستہ ہے، پھر چند خطوط اس کے دائیں اور بائیں جانب کھینچے، پھر فرمایا کہ یہ ایسے راستے ہیں جن میں سے ہر ایک پر شیطان ہے اور جو اپنی جانب بلاتا ہے ۔پھر آیت کریمہ: وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِيْماً فَاتَّبِعُوهُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَن سَبِيْلِهِ  کی تلاوت فرمائی ۔(مسند احمد:۱؍۴۳۵،۴۶۵)
پہلی روایت کے مطابق
 دوسری روایت کے مطابق
غور فرمائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطوط کھنچ کر آیت کریمہ اور اللہ کی راہ’’ صراط مستقیم ‘‘کی تشریح کس قدر عام فہم انداز میں فرمائی، جس سے صحابہ کرام رضى الله عنہم کے ذہنوں میں یہ بات بڑی آسانی سے جا گزیں ہو گئی کہ اللہ کا سیدھا راستہ صرف ایک ہے اور باقی تمام راستے شیطانوں اور گمراہی وضلالت کے ہیں۔
ایک دوسری روایت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں سمجھانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مربع نما شکل بنائی ۔ اور اس کے بیچ سے باہر نکلتا ہوا ایک خط کھینچا اور اس درمیانی خط سے ملا کر چھوٹے چھوٹے خطوط کھینچے ۔پھر مربع کے درمیان میں انگلی رکھ کر فرمایا:یہ انسان ہے اور مربع بنانے والے خطوط اس کی موت ہیں اور یہ چھوٹے چھوٹے خطوط حوادث و مصائب ہیں جو انسان پر حملہ کرتے رہتے ہیں۔اگر ان کا نشانہ چوک جاتا ہے تواجل آلیتا ہے ،اور مربع سے باہر نکلتا ہوا جو خط ہے وہ انسان کی آرزو اور تمنا ہے ۔جہاں تک آدمی کبھی نہیں پہنچ پاتا۔
 حافظ ابن حجر  رحمہ الله نے فتح الباری(۱۱؍۲۳۷)میں مختلف محدثین کرام کی بنائی ہوئی شکلیں نقل کی ہیں اور اس شکل کو سب سے زیادہ معتمد قرار دیا ہے۔
اس خاکہ کی مدد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات واضح فرمائی کہ انسان اور اس کی آرزؤوں کے درمیان حادثات اور مصائب حائل ہیں، پھر موت چاروں طرف سے انسان کو گھیرے ہوئے ہے، جس سے کوئی راہ فرار نہیں ۔اورانسان کو کتنی بھی طویل زندگی کیوں نہ ملے اس کی آزوئیں ادھوری رہ جاتی ہیں، اور کوئی بھی انسان زندگی میں اپنی تمام تمناؤں کی تکمیل نہیں کر پاتا۔(انظر صحیح البخاری مع الفتح:۱۱؍۲۳۵۔۲۳۷، سنن ابن ماجہ:۲؍۱۴۱۴،رسول خدا کا طریق تربیت ص ۴۶،۴۹)
Blogger Widgets