=حکمت کے موتی= تکبر علم کو کھا جاتا ہے۔۔۔ اچھا سوال آدھا علم ہے۔۔۔ ۔۔۔ پست ارادے کامیابی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔۔۔ خامیوں کا احساس کامیابی کی کنجی ہے۔۔۔ جھوٹ بول کر جیت جانے سے سچ بول کر ہار جانا بہتر ہے۔۔۔ اللہ کے دشمنوں سے محبت کرنا اللہ تعالٰی سے دشمنی کرنا ہے۔۔۔ کمزور موقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں،باہمت انسان خود مواقع پیدا کرتے ہیں۔۔۔ برا دوست کوئلے کے مانند ہے،گرم ہوگا تو جلائے گا،ٹھنڈا ہوگا تو ہاتھ کالا کرے گا۔۔۔ . Anisur Rahman Makki

سنا ہے لوگ اُسے




سنا ہے  لوگ   اُسے آنكھ   بھر كے  دیكھتے  ہیں 

تو اس کے شہر میں‌کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں 

سنا  ہے   ربط   ہے   اس   کو خراب  حالوں سے 
سو  اپنے   آپ   کو  برباد   کرکے   دیکھتے   ہیں 

سنا  ہے   درد   کی  گاہک   ہے  چشمِ  ناز  اس کی 
سو ہم  بھی  اس  کی گلی سے گزر  کے دیکھتے ہیں 

سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف 
تو  ہم  بھی  معجزے  اپنے  ہنر  کے  دیکھتے ہیں 

سنا ہے بولےتو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں 
یہ  بات  ہے تو چلو  بات کر کے دیکھتے ہیں 

سنا  ہے  رات  اسے  چاند  تکتا رہتا  ہے 
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں 

سنا  ہے  دن  کو  اسے  تتلیاں  ستاتی  ہیں 
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتےہیں 

سنا  ہے حشر  ہیں‌ اس کی  غزال  سی  آنکھیں 
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں 

سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں‌ کاکلیں اس کی 
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں 

سنا  ہے  اس  کی   سیہ   چشمگی  قیامت   ہے 
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں 

سنا ہےجب سے حمائل ہے اس کی گردن میں 
مزاج  اور  ہی  لعل  و گوہر  کے  دیکھتے ہیں 

سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے 
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں 

سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں 
سو  ہم  بہار  پہ  الزام دھر کےدیکھتے ہیں 

سنا   ہے   آئینہ  تمثال   ہے   جبیں   اس  کی 
جو سادہ دل ہیں‌اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں 

بس  اک  نگاہ  سے  لٹتا  ہے  قافلہ دل کا 
سو راہ روانِ تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں 

وہ   سرو  قد  ہے  مگر  بے  گل  مراد  نہیں 
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں 

بس  اك  نگاہ  سے  لوٹا  ہے  قافلہ دل كا 
سو رہ روان تمنا بھی ڈر كے دیكھتے ہیں 

سنا  ہے  اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت 
مکیں‌ ادھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں 

کسے  نصیب کے بے  پیرہن اسے دیکھے 
کبھی کبھی درو دیوار گھر کے دیکھتے ہیں 

رکے  تو  گردشیں اس  کا  طواف  کرتی  ہیں 
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں 

کہانیاں  ہی  سہی ، سب مبالغے  ہی  سہی 
اگر وہ خواب ہے تعبیر کرکے دیکھتے ہیں 

اب اس کے شہر میں‌ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں 
فراز   آؤ   ستارے   سفر  کے   دیکھتے  ہیں‌‌

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق

Blogger Widgets